(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )
مصر اور قطر نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور انسانی المیے کے خاتمے کے لیے اپنی بھرپور اور مسلسل سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ایسا معاہدہ طے پا سکے جو جنگ کو روکے، معصوم شہریوں کو تحفظ دے اور قیدیوں کے تبادلے کو ممکن بنائے۔
دونوں ممالک نے جمعہ کی شام ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ حالیہ تین ہفتوں پر محیط مذاکراتی دور میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، اور اس طویل و پیچیدہ مذاکراتی عمل میں وقفہ لے کر مشاورت کرنا فطری امر ہے، جس کے بعد دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔
بیان میں دونوں ممالک نے میڈیا کو تلقین کی کہ وہ غیرمصدقہ افواہوں کے پیچھے نہ چلیں جو بعض ذرائع ابلاغ میں زیرگردش ہیں، اور جن کا مقصد ان کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور مذاکراتی عمل پر منفی اثر ڈالنا ہے۔ ان افواہوں کو بے بنیاد اور مذاکرات کی حقیقت سے لاعلم ذرائع کی جانب سے پھیلایا گیا قرار دیا گیا۔
مصر اور قطر نے عالمی ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافتی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور غزہ میں جاری اس غیر معمولی انسانی بحران کو اجاگر کریں، نہ کہ جنگ بندی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں کسی طور شامل ہوں۔
بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ مصر اور قطر امریکہ کے ساتھ شراکت داری میں کام کرتے ہوئے غزہ میں مکمل جنگ بندی کے ایک جامع معاہدے کی جانب پیش رفت کے لیے پرعزم ہیں۔
اسی دوران آج صبح امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ غزہ کے مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہو گئی ہے، اور اسے ایک افسوسناک پیش رفت قرار دیا۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ’’حماس معاہدہ نہیں چاہتی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ قیدیوں کی بازیابی کے بعد کیا ہونے والا ہے۔‘‘
اس بیان پر فلسطینی حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ یہ موقف نہ صرف قابض اسرائیل کے بیانیے کی تائید کرتا ہے بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کی بے بسی پر سنگ دلی کا مظاہرہ بھی ہے۔ امریکہ کی اس روایتی جانبداری نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ انسانی حقوق، انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی دہائی دینے والے طاقتور ممالک فلسطین کے خون میں رنگے قابض اسرائیل کے جرم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔