غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی مٹی میں جلتے بے گناہ بچوں کی چیخیں، خون میں لت پت ماؤں کی آہیں اور تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے سسکتی انسانیت اب بھی شاید دنیا کی آنکھوں سے پردے ہٹانے کا باعث نہیں بن سکی، کیونکہ مجرمانہ غفلت کی یہ نیند اتنی گہری ہے کہ غزہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر بہتے فلسطینی خون کے دریا بھی اسے بیدار نہیں کر سکے۔ گہری اور مجرمانہ خاموشی کے باوجود ایک آواز ایسی ہے جو سوتی نہیں بلکہ ہر لمحہ اس ظلم و درندگی پر تڑپتی ہے۔ یہ آواز ہے اقوام متحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیز کی۔
یہ محض ایک ماہرِ قانون نہیں، بلکہ وہ آواز ہے جو دردِ فلسطین کی ترجمان بنی۔ جو قابض اسرائیل کی وحشیانہ درندگی پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کے سامنے دیوار بنی، اور وہ دیوار اتنی مضبوط نکلی کہ امریکہ جیسے سامراجی طاقت کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
فرانسسکا البانیز نے کوئی ہتھیار نہیں اٹھایا، صرف سچ بولا۔ وہ سچ جس میں غزہ کی تباہی کو نسل کشی کہا گیا، وہ سچ جس نے قابض اسرائیل کی خون آشام حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ لیکن دنیا کو یہ سچ برداشت نہ ہوا۔ امریکہ، جو مظلوم کی فریاد سننے کے بجائے ظالم کے بازو تھامتا ہے، فرانسسکا پر پابندیاں عائد کرنے دوڑ پڑا۔ انکل سام سے اس کے سوا کوئی اور توقع تھی بھی نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارک رومبیو نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ البانیز نفرت پھیلانے اور اسرائیل کے خلاف قانونی و اقتصادی جنگ چھیڑنے کی مرتکب ہوئیں۔ گویا انسانیت کا درد محسوس کرنا، مظلوم کا ساتھ دینا اور عدل کی بات کرنا، امریکہ کی نظر میں جرم بن چکا ہے۔
فرانسسکا کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ غزہ کے بچوں کی راکھ میں لپٹے جسموں کو “محض نقصان” نہیں سمجھتیں، بلکہ انہیں نسل کشی کا نشان مانتی ہیں۔ انہوں نے دنیا کو یاد دلایا کہ اسرائیل نے غزہ پر وہ بم برسائے جن کی تباہی ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے چھ گنا زیادہ ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر یہ کہتی ہیں کہ یہ “معمول کا تنازعہ” نہیں، یہ ایک مکمل منصوبہ بند تباہی ہے — یہ نسل کشی ہے۔
ان کی آخری رپورٹ ایک ایسی چیخ تھی جو خاموش نہ ہو سکی۔ اس رپورٹ میں 200 سے زائد دستاویزی ثبوت تھے، جن میں بتایا گیا کہ کس طرح گوگل، مائیکروسافٹ، لاکہیڈ، کاٹربلر اور دیگر عالمی کمپنیاں فلسطینیوں کی تباہی کے انسانیت سوز جرم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ وہ کمپنیاں جو قابض اسرائیل کو ہتھیار دیتی ہیں، نگرانی کے نظام فراہم کرتی ہیں، اور ان بلڈوزروں کا ایندھن بنتی ہیں جو فلسطینی گھروں کو مٹی میں بدل دیتے ہیں۔
یہ آواز کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ قانون کی زبان میں بولی جانے والی ایک پکار ہے۔ البانیز نے اسرائیل کے ان دعووں کو رد کیا جن میں کہا گیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “کیا واقعی اسرائیل نے جنگی قوانین کا لحاظ رکھا؟ کیا جلتے ہوئے بچوں کی لاشیں اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے؟”
فرانسسکا البانیز خود ایک درد مند دل رکھنے والی ماں، ایک ماہرِ قانون اور ایک انسان دوست آواز ہیں۔ ان کی تربیت اٹلی میں ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں عدل اور آزادی کے جذبے پروان چڑھتے تھے۔ انہوں نے غزہ کی تباہی کو صرف اعداد و شمار میں نہیں دیکھا بلکہ ان میں انسانیت کی لاشیں محسوس کیں۔ انہوں نے کہا کہ “کیا جلتے بچوں کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مرے ہیں؟”
یہی تو وہ جملہ تھا جس نے مغرب کے ضمیر کو جھنجھوڑا، اور اسے خاموش کرنے کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔
قابض اسرائیل نے اُن پر غصے میں اپنے دروازے بند کیے، داخلے پر پابندی لگائی، انہیں بدنام کرنے کی مہم چلا دی۔ امریکہ اور اسرائیل کے حمایتی حلقوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔ مگر 47 ممالک نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مدتِ کار میں توسیع کر دی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قابض اسرائیل کے نمائندے اقوام متحدہ کو “سیاہ دھبہ” کہنے لگے اور فرانسسکا پر نسلی تعصب کا الزام لگانے لگے۔
لیکن یہ الزامات اُس آواز کو خاموش نہیں کر سکے، جو غزہ کے ملبے تلے دبی سسکیوں کی صورت میں ابھرتی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ہر مظلوم فلسطینی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر غسان ابو ستہ پر یورپی پابندی پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ عصام یونس کے خاندان کے قتل پر دکھ میں ڈوبی دعائیں دیں اور کہا: “قابض اسرائیل کے فوجی اور اس کے مسلح آبادکار ایک ہی مکروہ سکے کے دو رخ ہیں۔”
فرانسسکا البانیز نے فلسطین کے لیے اپنے خلوص، علم، جذبے اور جرأت کو دنیا کے سامنے ایک ایسی مشعل کے طور پر پیش کیا ہے جو اندھیروں میں روشنی بن چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ “دنیا نے اگر فلسطین پر ظلم بند نہ کیا تو وہ اپنی اخلاقی قبر خود کھود رہی ہے۔”
فرانسسکا صرف ایک شخصیت نہیں، وہ ایک موقف ہیں — وہ مظلوم فلسطینیوں کی صدا ہیں، وہ اُن بچوں کی خاموش فریاد ہیں جنہیں عالمی خاموشی نے دفنا دیا۔ وہ ہر اُس دل میں زندہ ہیں جو ظلم کے خلاف، عدل کے ساتھ ہے۔
اقوام متحدہ کی معروف ماہرِ انسانی حقوق فرانسسکا البانیز قابض اسرائیل کے غاصبانہ قبضے، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نسلی صفایا کے خلاف جس ہمت، درد اور سچائی سے آواز اٹھا رہی ہیں، وہ انسانی ضمیر کے جاگنے کی روشن مثال ہے۔ ان کا ہر لفظ، ہر بیان اور ہر موقف فلسطین کے مظلوموں کے دکھوں کا ترجمان بن چکا ہے۔
فرانسسکا البانیز نے اپنی قانونی مہارت، علمی گہرائی اور انسانی جذبے کو فلسطینی قوم کی بے زبان چیخوں کا ترجمان بنایا۔ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں فلسطینی سرزمین پر قابض اسرائیل کے استعماری قبضے، نسل پرستانہ نظام اور سکیورٹی کے نام پر کیے جانے والے ظلم کو پوری جرأت سے بے نقاب کرتی رہیں۔
زخمی بچوں کے ثبوت کیوں؟ انسانیت کا مقدمہ
فرانسسکا البانیز اپنے سوشل میڈیا پیغامات میں ہمیشہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں۔ وہ کسی صحافتی انٹرویو سے انکار کر دیتی ہیں جس میں اُن سے پوچھا جائے کہ کیا وہ غزہ میں قابض اسرائیل کے مظالم کے اعداد و شمار پر یقین رکھتی ہیں؟ ان کے بقول، “جلے ہوئے بچوں کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔”
تعلیم، تجربہ اور فلسطینیوں کے حق کا مقدمہ
فرانسسکا اٹلی کی یونیورسٹی آف پیسا سے قانون میں امتیازی سند رکھتی ہیں۔ لندن میں حقوقِ انسانی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اس وقت ایمسٹرڈیم یونیورسٹی سے بین الاقوامی پناہ گزین قانون میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ میں خدمات کا ایک دہائی پر محیط سفر، خاص طور پر سنہ 2003ء سے سنہ 2013ء تک القدس میں قائم “انروا” کے قانونی شعبے میں ان کی وابستگی کا عملی ثبوت ہے۔
پہلا قدم ہی قابض اسرائیل کے چہرے پر طمانچہ
اقوام متحدہ میں بطور ماہر انسانی حقوق تعیناتی کے فوراً بعد، سنہ 2022ء میں البانیز نے اقوام متحدہ کو یہ تجویز دی کہ قابض اسرائیل کے استعماری قبضے کو ختم کرنے کی عملی منصوبہ بندی کی جائے۔ ان کی پہلی ہی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ قابض اسرائیل کا نظام ایک سوچے سمجھے نسلی تعصب، جبر اور زبردستی قبضے کا نمائندہ ہے، جو فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
یہ حق گوئی صہیونی لابی کے گلے میں ہڈی بن گئی۔ انہیں “یہود دشمن” قرار دیا گیا۔ امریکہ کے 18 ارکانِ کانگریس نے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان پر فلسطینیوں سے رقم لینے اور تعصب برتنے جیسے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔
سچ بولنے کی سزا: قابض اسرائیل کی انتقامی کارروائیاں
قابض اسرائیل نے فرانسسکا البانیز پر زمین تنگ کر دی۔ فروری 2024ء میں انہیں مقبوضہ فلسطین میں داخلے سے روک دیا گیا۔ وجہ یہ بنی کہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی کارروائی “طوفان الاقصیٰ” کے پس منظر کو بیان کیا۔
مارچ 2024ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اپنی رپورٹ میں انہوں نے صاف لکھا کہ “قابض اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی کارروائیاں کیں، اور تباہی کی شدت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد فلسطینی قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔”
تاریخ ساز الفاظ: “نسل کشی مکمل ہو چکی ہے”
فرانسسکا البانیز کی رپورٹ کا عنوان ہی آنکھیں کھولنے والا تھا: “نسل کشی کا تجزیہ”۔ اس میں انہوں نے اس حد تک ثبوت فراہم کیے کہ ثابت ہو گیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ “نسل کشی” ہے۔
جب انہوں نے بنجمن نیتن یاھو کو ہٹلر سے تشبیہ دی تو قابض اسرائیل آپے سے باہر ہو گیا۔ 24 جولائی کو ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا، مگر اقوام متحدہ کی 47 ریاستوں نے ان پر اعتماد کا ووٹ دیا۔ قابض اسرائیل، ہنگری اور ارجنٹینا ان کی تین سالہ توسیع کو روکنے میں ناکام رہیں۔
قابض اسرائیل کے مستقل نمائندے دانی دانون نے اقوام متحدہ پر غصے سے برستے ہوئے کہا، “یہ اخلاقی سیاہی کا دھبہ ہے”۔ اسرائیلی میڈیا نے اس دن کو “اسرائیل کے لیے سیاہ دن” قرار دیا۔
بے خوف حامی
فرانسسکا البانیز کو دھمکیاں ملیں، الزامات لگے، مگر وہ نہ جھکیں نہ تھکیں۔ 5 مئی 2024ء کو انہوں نے فلسطینی نژاد برطانوی ڈاکٹر غسان ابو ستہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا، جو غزہ کے ہسپتال میں قتلِ عام سے بال بال بچے۔ انہوں نے کہا، “بطور یورپی شہری، میں ڈاکٹر ابو ستہ سے معذرت خواہ ہوں۔ جرمنی نے جس طرح ان کا یورپ میں داخلہ بند کیا، وہ اسرائیل کی نسل کشی کا دفاع ہے۔”
16 مئی کو انہوں نے فلسطینی انسانی حقوق کے کارکن عصام یونس سے تعزیت کی، جنہوں نے اسرائیلی بمباری میں اپنے کئی عزیزوں کو کھو دیا۔ اسی روز انہوں نے لکھا، “قابض اسرائیل کے فوجی اور اس کے آبادکار ایک جیسے ہیں، بس ایک وردی میں اور دوسرا بغیر وردی کے — دونوں قانون سے بالاتر۔”
بچپن سے فلسطین کا درد دل میں
فرانسسکا البانیز 1977ء میں جنوبی اٹلی کے علاقے اریانو ایربینو میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان سیاسی اور انسانی حقوق کے معاملات پر گہری سوچ رکھتا تھا۔ ان کی پہلی عالمی یادداشتیں صبرا و شتیلا کے قتلِ عام کی تصویریں تھیں۔
وہ آج کل تیونس میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے شوہر ماسیمیلیانو کالی عالمی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، اور فلسطینی وزارتِ معیشت کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
قلم بھی آواز، زبان بھی ہتھیار
فرانسسکا البانیز نے فلسطینیوں کے حقوق پر درجنوں تحقیقی مقالے اور مضامین لکھے۔ ان کی کتاب “فلسطینی پناہ گزین: بین الاقوامی قانون کی روشنی میں” 1998ء میں شائع ہوئی، جسے 2020ء میں اپ ڈیٹ کیا گیا۔
2023ء میں انہیں اٹلی کا معروف “اسٹیفانو کیارینی انعام” دیا گیا، جو فلسطین کے انسانی بحران کو اجاگر کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔
فرانسسکا البانیز، وہ جرات مند نام ہے جو نہ بکتا ہے نہ جھکتا، جو سچ کہتا ہے اور سچ کے لیے لڑتا ہے۔ وہ آج بھی مظلوم فلسطینیوں کی صف میں کھڑی ہے، ان کی آواز بن کر۔ وہ ایک ضمیر ہے، جو ابھی زندہ ہے۔