غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ کی سرزمین پر بہنے والا خون اب صرف ایک خبر نہیں رہا — یہ ہر دل میں دھڑکتا ایک زخم بن چکا ہے۔ اتوار 13 جولائی کی صبح، نصیرات کے نئے کیمپ میں پیاس سے تڑپتے ننھے بچوں نے جب پانی کی امید میں قطار بنائی، تو نہ انہیں پانی ملا، نہ زندگی۔ قابض اسرائیلی ڈرون نے ان کے ننھے جسموں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، یہ ایک دل دہلا دینے والا “پیاسوں کا قتل عام” تھا — ایسا اندوہناک منظر، جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ شرما جائیں، قلم لرز جائے، اور آنکھیں اشکبار ہو جائیں۔ سات معصوم بچے، جن کے ہاتھوں میں خالی گیلن تھے۔ جنہوں نے صرف پانی مانگا تھا، زندگی چاہی تھی۔ انہیں درندگی سے بھرے ایک میزائل نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔
سراج پانی لینے گیا… کفن میں لوٹا
نو سالہ سراج ابراہیم — معصوم چہرہ، کمزور جسم، کانپتے قدم۔ اس صبح جب وہ اپنے گھر سے نکلا، تو صرف اتنی سی خواہش تھی کہ چند قطرے پانی لا سکے۔ تین ماہ سے پیاس سے بلکتی اس کی ماں، بہن، بھائی، اور بیمار باپ شاید آج سیراب ہو جائیں۔
سراج کو کیا خبر تھی کہ یہ سفر اس کی آخری منزل بن جائے گا۔
وہ گیلن تو نہ بھر سکا، لیکن اس کا خون قابض اسرائیل کی سفاکی کی گواہی بن کر مٹی میں جذب ہو گیا۔ اس کے والد نے جب بیٹے کی لاش سینے سے لگائی تو بس اتنا کہہ سکے:
“تین مہینے سے پیاسے ہیں… ہمیں پانی نہیں چاہیے، بابا؟“
سراج کا سوال اب پوری انسانیت سے ہے۔ اور یہ صرف سراج کا نہیں، بلکہ ان بیس ہزار بچوں کا سوال ہے جو اس وحشیانہ نسل کشی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
جب آسمان سے موت برسی
وہ سب پانی لینے آئے تھے — امیدوں کے ساتھ۔ لیکن جب پانی کے مرکز پر اسرائیلی ڈرون نے میزائل برسایا، تو سارا منظر گویا قیامت بن گیا۔ لاشیں زمین پر بکھر گئیں، گیلن خون سے بھر گئے، اور آسمان چیخوں سے گونج اٹھا۔
“یہ کس جرم کی سزا ہے؟“
ابو محمد کی لرزتی آواز گونجی۔
“کیا صرف پیاسا ہونا جرم ہے؟ کیا پانی مانگنے کی سزا موت ہے؟“
ایک عمر رسیدہ شخص، جو قطار سے ہٹ چکا تھا، اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ رہا تھا جسے نہ وقت بھلا سکے گا، نہ زمین۔
“بچے بکھرے پڑے تھے… کچھ کی سانسیں باقی تھیں، کچھ کی آخری ہچکیاں۔ جن بچوں کو اٹھایا، وہ میرے پڑوسیوں کے تھے۔ ان کا کیا قصور تھا؟”
ابو محمد کی آواز بھرا گئی، آنکھیں اشکوں کا دریا بن گئیں۔ ہر سوال انسانیت کی عدالت میں گونج رہا ہے۔
جب بچپن مٹایا جا رہا ہو
قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کا سب سے بڑا نشانہ بچے بنے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023ء سے روزانہ اوسطاً 27 فلسطینی بچے مارے جا رہے ہیں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں، بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے — ایک مستقبل کے فلسطین کو مٹانے کی سازش۔
اب تک 18 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔ 130 بچے صرف ایک دن میں قتل کیے گئے — وہ بھی کسی جنگی محاذ پر نہیں، بلکہ اپنے گھروں، خیموں، ہسپتالوں اور پانی کی قطاروں میں۔
یاد رکھو… یہ فقط لاشیں نہیں
یہ معصوم چہرے، جو چند قطروں کی طلب میں خاموش ہو گئے، ان کی پیاس تو بجھ نہ سکی، لیکن ان کے خون نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
یہ لاشیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں:
“ہماری خاموشی کو مت سمجھو — ہم تاریخ میں لکھے جائیں گے… بطور سوال، بطور احتجاج، بطور آنسو۔“