Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

مصر کی دینی درس گاہ جامعہ الازھر نے کس کے دباؤ پرغزہ کی حمایت میں اپیل واپس لی؟

قاہرہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) عالم اسلام کی عظیم مذہبی درسگاہ جامعہ ازہر کی جانب سے غزہ میں جاری قتل عام اور قحط کے خلاف عالمی برادری کو پکارنے والی اپیل ہٹائے جانے کے بعد مصر سمیت پورے عالمِ عرب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس فیصلے کے خلاف شدید ردِعمل سامنے آیا ہے اور مختلف حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر اس بیان کو ہٹانے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ کسی سیاسی دباؤ کے تحت کیا گیا؟

یہ وہی بیان تھا جس میں ازہر شریف نے غزہ میں جاری صیہونی مظالم کو “ایک بے مثال قتل عام” قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جو بھی قابض اسرائیل کی ہتھیاروں سے یا سیاسی فیصلوں کے ذریعے حمایت کرتا ہے، وہ فلسطینی قوم کی نسل کشی میں براہ راست شریک ہے۔

جامعہ ازہر کے اس بیان میں کہا گیا تھا کہ دنیا کا انسانی ضمیر کڑی آزمائش سے گزر رہا ہے، کیونکہ فلسطینیوں کو جان بوجھ کر قتل کیا جا رہا ہے اور انہیں دانستہ بھوکا رکھا جا رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ “ہم اپنی دکھی صدا بلند کرتے ہیں، اپنا غم زدہ نالہ پیش کرتے ہیں، تاکہ دنیا کے با ضمیر، آزاد اور عقلمند انسان غزہ کے مظلوموں کو اس ہولناک قحط سے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، جو قابض اسرائیل نے ظلم، جبر اور وحشیانہ طاقت کے ذریعے مسلط کر رکھا ہے، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔”

مگر یہ آواز، جو ابھی مکمل طور پر گونجی بھی نہ تھی، اچانک جامعہ کی سرکاری ویب سائٹ اور دیگر پلیٹ فارمز سے ہٹا دی گئی، جس کے بعد متعدد صحافیوں، محققین اور سماجی کارکنوں نے ازہر کی خودمختاری پر سوال اٹھائے۔ سوشل میڈیا پر یہ بات موضوعِ بحث بنی رہی کہ آیا ازہر واقعی آزاد مذہبی ادارہ ہے یا اب وہ بھی سیاسی اثر و رسوخ کے زیرِ اثر آ چکا ہے؟

قطر کے الجزیرہ چینل سے وابستہ فلسطینی صحافی تامر مسحال نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ “جامعہ ازہر کی جانب سے غزہ کے حق میں کی گئی اپیل چند منٹ بھی نہ ٹک سکی، اسے فوری ہٹا دیا گیا!!”

ازہری محقق ڈاکٹر محمد الصغیر نے اس بیان کو حق گوئی کی صدا قرار دیا اور افسوس سے سوال کیا: “کیا ہم اب ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں صرف زبان بند کرنا ہی کافی نہیں رہا بلکہ ضمیر کی بھی گردن دبا دی گئی ہے؟”

سماجی کارکن ہيثم أبو خليل کا کہنا تھا کہ بیان کا ہٹایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جامعہ ازہر اب ایک خودمختار ادارہ نہیں رہا۔ ان کے مطابق، اس بیان نے واضح طور پر ان طاقتوں کو بے نقاب کیا جو غزہ کو بھوکا مارنے کی ذمہ دار ہیں۔ اسی لیے اسے فوراً غائب کر دیا گیا۔

مصری نژاد سماجی کارکن حیات الیمانی نے قابض اسرائیل کے بائیں بازو کی جانب سے تل ابیب میں غزہ کے لیے خوراک فراہم کرنے کے مطالبے پر ہونے والے مظاہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مظلوم اقوام آواز بلند کر رہی ہیں، جب کہ عرب دنیا کے مذہبی ادارے خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں!”

مصری صحافی حمد باخشوین نے لکھا کہ “اب تو اہلِ غزہ کے لیے لفظی اظہارِ یکجہتی بھی عرب اور مسلم اقوام پر حرام ہو گیا ہے! یہ کمزوری نہیں، ذلت ہے، رسوائی ہے، غلامی ہے۔ کیا یہ امت کے علما کی زبان ہے، یا وہ گہرائی جو آج کی دنیا میں حق اور عزت کی آواز بننے سے قاصر ہے؟”

جب یہ تنازع ہر طرف پھیل گیا تو جامعہ ازہر کے میڈیا سینٹر نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ بیان واپس لینے کا فیصلہ “شرعی اور قومی ذمہ داری” کے تحت لیا گیا ہے تاکہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جاری جنگ بندی مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔

بیان میں کہا گیا کہ جامعہ ازہر کی میڈیا ٹیم نے غزہ کی صورتِ حال پر جاری کیے گئے بیان پر سوشل میڈیا پر آنے والے تبصروں کا بغور جائزہ لیا ہے۔ ازہر نے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، اور امتِ عرب و مسلم، بالخصوص اہلِ غزہ کی نصرت کے تقاضے کے تحت، اس بیان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

جامعہ نے مزید کہا کہ انہوں نے یہ قدم خالص نیت اور دینی ذمہ داری کے تحت اٹھایا تاکہ غزہ کے معصوموں کو بچانے کے لیے جاری مذاکرات کسی قسم کی رکاوٹ یا بہانے کا شکار نہ ہوں۔ ساتھ ہی اس امید کا اظہار کیا گیا کہ یہ مذاکرات خونریزی کے سیلاب کو روکنے اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا ذریعہ بنیں گے۔

جامعہ ازہر نے اپنے اختتامی بیان میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اہلِ غزہ کو مزید صبر، استقامت اور سکون عطا فرمائے، اور انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔

دوسری جانب معروف اخبار “العربی الجدید” نے باوثوق ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ جامعہ ازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب کو مصر کے اعلیٰ سرکاری اداروں سے براہِ راست فون کالز موصول ہوئیں، جن میں انہیں خبردار کیا گیا کہ ان کی اپیل جاری سفارتی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

ان ذرائع کے مطابق مصر کی سرکاری میڈیا سروسز کمپنی سمیت دیگر نیوز ویب سائٹس کو فوری طور پر بیان ہٹانے کی ہدایت دی گئی، یہ کہہ کر کہ بیان “ترمیم کے عمل” سے گزر رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیان دوبارہ منظرِ عام پر نہ آ سکا۔

“العربی الجدید” کے مطابق، ازہر کا اس اقدام کو قبول کرنا ایک غیر معمولی نظیر ہے، کیونکہ ماضی میں ازہر نے فلسطینی کاز کے حق میں ہمیشہ دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے۔ اب کے بار، یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ ازہر نے سیاسی مفاد کو اپنی اصولی پوزیشن پر ترجیح دی، حالانکہ اس کے ابتدائی بیان میں قابض اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

یہ واقعہ اس بڑے سوال کو دوبارہ جنم دیتا ہے کہ آیا ازہر شریف اب بھی ایک آزاد مذہبی ادارہ ہے یا نہیں، خاص طور پر ایسے دور میں جب ریاست نے میڈیا اور مذہب دونوں پر اپنی گرفت کو مزید سخت کر لیا ہے، تاکہ عوامی بیانیہ کو اپنے سیاسی اور سفارتی مفاد کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan