غرب اردن(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )ا قابض اسرائیلی حکام نے جنوبی الخلیل کے علاقے مسافر یطا کی بستی ’’صارورہ‘‘ کو فوجی علاقہ قرار دے کر مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب صہیونی آبادکاروں نے فلسطینی شہری جمیل العمور کے زیر ملکیت ایک غار پر قبضہ کر لیا اور مقامی فلسطینیوں کو وہاں تک پہنچنے سے روک دیا۔
یہ فیصلہ اُس وقت کیا گیا جب مسافر یطا کے مختلف علاقوں میں آبادکاروں کے حملوں میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں میں زیتون کے درختوں کی کٹائی، پانی کی لائنوں کی تباہی اور فلسطینی شہریوں پر براہ راست حملے شامل ہیں۔
انسدادِ یہودی آبادکاری کے سرگرم کارکن اسامہ مخامرہ نے بتایا کہ جب التوانہ دیہاتی کونسل اور انسانی حقوق کے اداروں نے قابض اسرائیلی فوج سے رابطہ کر کے آبادکاروں کو غار سے نکالنے کا مطالبہ کیا تو فوج علاقے میں پہنچی لیکن الٹا اس نے صارورہ کے علاقے کو بند فوجی زون قرار دے دیا، جس کا رقبہ تقریباً 400 دونم بنتا ہے۔ فوج نے مقامی فلسطینیوں اور ان کے ساتھ آئے بین الاقوامی رضاکاروں کو زبردستی وہاں سے نکال دیا جبکہ آبادکاروں کو غار کے اندر ہی رہنے دیا۔
اسامہ مخامرہ نے ’’العربی الجدید‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ صارورہ مسافر یطا کی کئی بستیوں اور خربوں کے درمیان واقع ہے۔ اس کے مغرب میں خربہ المفقرة، جنوب مشرق میں خلہ الضبع اور شمال میں التوانہ گاؤں واقع ہے جبکہ مشرق اور شمال مشرق میں قابض اسرائیلی بستی ’’حفات معون‘‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ دراصل سات اکتوبر سنہ2023ء سے پہلے ہی فلسطینیوں کے لیے تقریباً ممنوعہ علاقہ بن چکا تھا کیونکہ آبادکار آئے روز ان پر حملے کرتے ہیں اور بستی کے قریب ہونے کے باعث یہاں داخل ہونا انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود مقامی کسان اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے روزانہ یہاں آتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چند روز قبل صہیونی آبادکاروں نے صارورہ کی ایک پہاڑی پر خیمہ نصب کیا اور چوبیس گھنٹے وہاں موجود رہنے لگے تاکہ اپنی موجودگی کو مستحکم کر کے العمور خاندان کی مزید زمینوں پر قبضے کی راہ ہموار کریں۔
صارورہ کا علاقہ سینکڑوں دونم پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے قریب ترین بستی خربہ المفقرة ہے جہاں تقریباً 150 فلسطینی بیس غاروں میں رہائش پذیر ہیں۔
اسامہ مخامرہ نے کہا کہ صارورہ پر صہیونی لالچ دراصل ایک وسیع تر آبادکاری منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت قابض اسرائیل کی کوشش ہے کہ ’’ماعون‘‘ اور ’’اویجال‘‘ نامی دو بستیوں کو آپس میں ملا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ الرکیز، خلہ الضبع اور صارورہ جیسے علاقوں میں جارحانہ توسیع کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ دنوں آبادکاروں نے متعدد منظم حملے کیے جن میں انگور اور زیتون کے پودے اکھاڑنا، شہری محمود ابو تحفظہ کا خیمہ گرانا اور لوٹ لینا، محمد عبید کے انگور کے باغات اور دیگر املاک کو تباہ کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام حملے ایک منظم منصوبے کے تحت کیے جا رہے ہیں تاکہ فلسطینی زمینوں پر قبضہ مستحکم کیا جا سکے۔
مسافر یطا میں تحفظ و صمود کمیٹی کے رابطہ کار فؤاد العمور نے کہا کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی اسرائیلی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کرنا ہے۔ یہ پالیسی آبادکاری کے پھیلاؤ، سرکاری نوٹسوں اور قابض فوج و پولیس کی سرپرستی میں کی جانے والی روزانہ کی درندگی پر مبنی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صارورہ میں آبادکاروں کی جانب سے غار پر قبضہ انتہائی خطرناک مثال ہے۔ ایک آبادکار نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو واقعے کی ویڈیو بنانے سے بھی روکا اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ اس کی بیوی کی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ فؤاد العمور کے مطابق یہ ایک نئی اسرائیلی چال ہے جس کے ذریعے وہ جعلی قانونی جواز گھڑ کر اپنی غیرقانونی آبادکاری کی حقیقت کو چھپانا چاہتے ہیں۔
دیوار اور آبادکاری کے خلاف مزاحمت کی فلسطینی اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق سات اکتوبر سنہ2023ء کو غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی نسل کشی کے بعد سے مغربی کنارے میں آبادکاروں کے حملوں میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ صہیونی آبادکار اب تک 7 ہزار 154 حملے کر چکے ہیں جن کے نتیجے میں 33 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔