بیروت – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریکِ مزاحمت ’حماس‘ کے رہنما اسامہ حمدان نے ایک دردناک حقیقت دنیا کے سامنے رکھی ہے کہ قابض اسرائیلی دہشت گردی کی ایک اور واردات میں امدادی سامان کے طلبگار 1487 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ دس ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل کی جان لیوا حکمتِ عملی کا مقصد غزہ کے عوام کو بھوک میں مبتلا کر کے ان کی زندگیوں کو تہ و بالا کرنا ہے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ غزہ میں 96 فیصد گھرانے شدید غذائی بحران کا شکار ہیں اور حالات نہایت ابتر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بچوں کے لیے دودھ اور طبی سامان کی شدید قلت ہے، جو بھوک اور غذائی قلت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
رہنما حماس نے انکشاف کیا کہ 22 ہزار ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان قابض اسرائیل کی سخت پابندیوں کے باعث غزہ میں داخل نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے محصور فلسطینیوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل دانستہ طور پر اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کر کے فلسطینیوں کو قحط و گرسنگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے۔
اسامہ حمدان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری مداخلت کرے اور اس انسانیت سوز بحران کا خاتمہ کرے۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیل، امریکہ کی غیر مشروط حمایت کے ساتھ، سنہ 2023ء کے 7 اکتوبر سے غزہ میں ایک گھمبیر نسل کشی کر رہا ہے، جس میں قتلِ عام، بھوک، تباہی اور جبری بے دخلی جیسے جرائم شامل ہیں۔
اس وحشیانہ حملے میں اب تک دو لاکھ نو ہزار سے زائد فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ نو ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
اس کے علاوہ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، قحط نے بے شمار بچوں کی جانیں نگل لی ہیں، اور غزہ کے بیشتر شہر و علاقے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں۔