غزہ – مرکز(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ بھوک اور محاصرے کی پالیسی نے غزہ میں ایک اور المناک حقیقت کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 18 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں کی ہے، صرف بھوک اور غذائی قلت کے باعث شہید ہو چکے ہیں۔
طبی ذرائع کے مطابق، غزہ کے ہسپتالوں میں روزانہ سینکڑوں مریض ایسے لائے جا رہے ہیں جو شدید جسمانی کمزوری، حافظے کی خرابی، اور توانائی کی شدید قلت جیسے خطرناک علامات کا شکار ہیں۔ ہسپتالوں میں نہ بستر دستیاب ہیں، نہ دوا، اور نہ ہی ایندھن۔
اب تک بھوک سے شہید ہونے والوں کی تعداد 86 ہو چکی ہے، جن میں 76 معصوم بچے شامل ہیں۔ شمالی غزہ میں تقریباً 17 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ کم از کم 800 بچے ایسے ہیں جن کی جان کسی بھی وقت جا سکتی ہے۔
الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر نے بیان میں کہا کہ طبی عملہ خود بھی گزشتہ 24 گھنٹوں سے بغیر خوراک کے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خوراک اور ادویات کی فراہمی فوری بحال نہ کی گئی تو آئندہ چند گھنٹوں میں اموات کی تعداد میں خطرناک اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: “ہم ایک منظم نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں جو فاقہ کشی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔”
اقوام متحدہ کی ایجنسی ’انروا‘ نے بھی خبردار کیا ہے کہ بچوں میں غذائی قلت کی شرح دوگنی ہو چکی ہے۔ مارچ سے جون 2025ء کے درمیان کیے گئے 74 ہزار سے زائد طبی معائنے میں ہزاروں بچے شدید غذائی قلت کے شکار پائے گئے۔
قابض اسرائیل کی طرف سے خوراک، دوا اور ایندھن کی فراہمی پر مسلسل پابندی نے نہ صرف صحت کے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے بلکہ انسانی زندگیوں کو ختم کرنے کی ایک منظم اور خوفناک مہم کی شکل اختیار کر لی ہے۔