غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ پر مسلط کی گئی جنگِ قحط کا ایک اور ہولناک پہلو سامنے آ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین، “انروا” نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے پاس غزہ کے تمام شہریوں کے لیے تین ماہ سے زائد کی مکمل غذائی اشیاء کا ذخیرہ موجود ہے، جو مصر کے شہر العریش میں محفوظ ہے۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ قابض اسرائیل اس تیار شدہ خوراک کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا۔
ہفتے کے روز جاری بیان میں انروا نے کہا کہ یہ امدادی خوراک فوری طور پر تقسیم کے لیے دستیاب ہے، مگر محاصرے، بند سرحدی راستوں اور اسرائیلی ہٹ دھرمی نے اس نازک انسانی خدمت کو مفلوج کر رکھا ہے۔
انروا نے عالمی برادری سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ:
“تمام زمینی گزرگاہیں فی الفور کھولی جائیں، تاکہ غزہ میں قید دو ملین سے زائد مظلوم فلسطینی، خصوصاً ایک ملین بچے، موت کی اس چکی سے بچ سکیں۔“
2 مارچ 2025ء کے بعد مکمل محاصرہ
اسرائیل نے 2 مارچ 2025ء سے تمام بارڈر بند کر رکھے ہیں، نہ صرف غذائی اشیاء بلکہ طبی امداد تک کی رسائی بھی مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔ نتیجتاً غزہ میں قحط اور طبی بحران نے تباہ کن شکل اختیار کر لی ہے۔
فلسطینی وزارتِ صحت نے اطلاع دی ہے کہ:
-
ہسپتالوں میں بھوک اور غذائی قلت کے باعث اموات کی شرح میں خطرناک اضافہ ہو چکا ہے۔
-
ایمرجنسی وارڈز میں روزانہ سینکڑوں افراد شدید نقاہت، جسمانی کمزوری، اور ٹوٹ پھوٹ کی حالت میں لائے جا رہے ہیں۔
-
سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں بچے، بزرگ، اور خواتین شامل ہیں، جو صرف ایک لقمے کی تلاش میں موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
“بھوک کی جنگ” — ایک منصوبہ بند نسل کشی
فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک نے خبردار کیا ہے کہ غزہ اس وقت تاریخ کے بدترین انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے، جس کی بنیاد اسرائیل کی جانب سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نافذ کردہ “بھوک کی جنگ” ہے۔
تنظیم کے مطابق:
“خوراک، خاص طور پر آٹے کی مکمل قلت نے بچوں اور بزرگوں میں اموات کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اگر عالمی برادری نے فوری اقدام نہ کیا، تو یہ نسل کشی مزید خونی اور وسیع پیمانے پر ہو جائے گی۔“
خوراک نہیں، انسانیت روکی جا رہی ہے
آج غزہ میں بھوک صرف پیٹ کی آگ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور نسل کش ہتھیار بن چکی ہے۔
العریش میں موجود امدادی خوراک غزہ کے بچوں، عورتوں، اور بزرگوں کے لیے زندگی کی واحد امید ہے، مگر قابض اسرائیل نے اسے بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔
یہ صرف خوراک کی روک تھام نہیں، بلکہ انسانیت کی بنیادوں پر حملہ ہے۔