غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) جب فلسطینی مزاحمت اپنے خون میں لت پت عوام کی زندگی بچانے کے لیے عالمی اور علاقائی ثالثی کوششوں کا ذمہ داری سے خیرمقدم کر رہی ہے، وہیں قابض اسرائیل نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی منظم حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ دراصل یہ کوئی مذاکرات نہیں بلکہ ایک سیاسی ڈرامہ ہے جس کا مقصد قابض ریاست کے اندرونی اور بیرونی مفادات کو تحفظ دینا ہے۔
مکاری، فریب اور انسانی المیے پر سیاست
مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو میں سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل ثوابتہ کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیل دوغلے پن اور فریب پر مبنی راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ بظاہر مذاکرات کا راگ الاپتا ہے، مگر پس پردہ پروپیگنڈے، نمائشی چالاکیوں، امداد کی راہ میں رکاوٹیں، انخلا سے انکار اور جبری ہجرت کی پالیسیوں پر عمل کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کی آشیرباد اور ایک دانستہ خاموش سفارتی خلاء میں انجام پا رہا ہے۔
مذاکرات کی آڑ میں جھوٹ
ثوابتہ کے مطابق قابض اسرائیل ایک گمراہ کن میڈیا حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔ وہ عوام کو دکھانے کے لیے معاہدے کے امکانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، مگر درحقیقت مذاکرات کی میز پر سخت رویہ اختیار کرتا ہے تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے اور فلسطینی مزاحمت پر نفسیاتی دباؤ ڈالا جا سکے۔
ثوابتہ کا کہنا ہے کہ “جب مزاحمت مکمل ذمہ داری سے جنگ بندی کی کوششوں کا حصہ بن رہی ہے، قابض اسرائیل میڈیا کو ہتھیار بنا کر مذاکرات کو تباہ کرنے میں مصروف ہے”۔
اس بات کی تصدیق متعدد اسرائیلی صحافتی رپورٹس بھی کرتی ہیں، جیسا کہ قابض چینل 12 نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی حکومت جان بوجھ کر متضاد اطلاعات پھیلا رہی ہے تاکہ ثالثوں کو الجھایا جا سکے اور جھوٹا تاثر دیا جا سکے کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہو رہی ہے۔
میدان خون سے لال، مذاکرات کے باوجود قتل عام جاری
غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کی روزمرہ کی درندگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی، خواہ مذاکرات ہو رہے ہوں یا نہیں۔ حالیہ ایام میں الزيتون محلہ، دیر البلح اور خان یونس میں مہاجر کیمپوں پر بمباری نے کئی خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
قانونی ماہر احمد ابو زہری کہتے ہیں کہ “جس فریق کا طیارہ مسلسل بم برسا رہا ہو، وہ کیسے کسی نیک نیتی والے مذاکراتی عمل کا حصہ ہو سکتا ہے؟ روزانہ کا قتل و قتال نہ صرف سفارتی آداب کی پامالی ہے بلکہ باہمی اعتماد کی ہر بنیاد کو تباہ کر دیتا ہے۔”
“ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” کی ایک رپورٹ کے مطابق، سنہ 2025ء کے گذشتہ دو ماہ کے دوران 70 فیصد سے زائد شہری ہلاکتیں ان ایام میں ہوئیں جب مذاکرات جاری تھے۔ یہ حقیقت اس جھوٹ کو دفن کر دیتی ہے کہ قابض اسرائیل امن کا خواہاں ہے۔
قابض کی پالیسی: انخلا نہیں، نئے حقائق کا نفاذ
قابض اسرائیل “نقشہ جات برائے دوبارہ تعیناتی” کے نام پر غزہ کے وسیع علاقوں پر اپنی فوجی گرفت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ان علاقوں میں نیٹزاریم، صلاح الدین کوریڈور (مصر کی سرحد) اور رفح کے مہاجر کیمپ شامل ہیں۔ یہ منصوبہ دراصل ایک طویل المدتی جبری ہجرت کی سازش ہے۔
فلسطینی مزاحمت ان نقشوں کو محض “مذاکراتی فریب” قرار دیتی ہے، جو قابض اسرائیل کی موجودگی کو قانونی شکل دینے اور جبری ہجرت کو مستحکم کرنے کی سازش ہیں۔ اس کا واضح انکار جنوری سنہ 2025ء کے معاہدے میں کیا گیا تھا، جس میں مکمل انخلا اور تمام مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انسانی امداد کو ہتھیار بنانا: ایک اور ظلم
ثوابتہ نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل انسانی امداد کو ایک سودے بازی کا ہتھیار بنائے ہوئے ہے۔ امدادی قافلے یا تو روکے جا رہے ہیں یا انہیں ان علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے جہاں آبادی کو زبردستی منتقل کیا جانا مقصود ہے، جیسا کہ موراج روٹ پر ہوا۔ وہاں ہزاروں مہاجرین کو ایسی جگہوں پر جمع کیا گیا، جو قابض طیاروں کے نشانے پر تھیں — یہ “موت کے پھندے” سے کم نہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، جون کے مہینے میں قابض اسرائیل نے 80 فیصد سے زیادہ امدادی ٹرکوں کو غزہ داخل ہونے سے روکے رکھا، حالانکہ ان کی راہ کھولنے پر عارضی معاہدے بھی موجود تھے۔ یہ عمل بنیادی خوراک اور دواؤں کو اجتماعی دباؤ کے لیے استعمال کرنا ہے، جو ایک جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
امریکہ کا کردار: قابض کی پشت پناہی
ماہرین کے مطابق مذاکراتی عمل کی سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ کی غیر مشروط سیاسی اور سفارتی حمایت ہے، جو قابض اسرائیل کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دیتی ہے۔ واشنگٹن ایک طرف تو وقتی جنگ بندی کی بات کرتا ہے، دوسری طرف اسرائیل سے مستقل انخلا کی کوئی شرط نہیں لگاتا۔
ابو زہری کے مطابق: “مذاکرات کو اصل معنی سے محروم کر دینے میں امریکہ کا کھلا جھکاؤ سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے، جو قابض اسرائیل کو کسی بھی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کھلی چھوٹ دیتا ہے۔”
جنگ کے تسلسل پر انحصار: بنجمن نیتن یاھو کا بچاؤ منصوبہ
اسماعیل ثوابتہ نے مرکز اطلاعات فلسطین کو اپنی ایک پوسٹ کے حوالے سے بتایا کہ قابض اسرائیل کا اصل مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں، بلکہ اس کو طول دینا ہے تاکہ بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کو اندرونی بحرانوں سے بچایا جا سکے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ سے راہِ فرار مل سکے۔
ان کا کہنا تھا: “تمام شواہد یہی بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیل مذاکرات کے نام پر ایک کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ سنجیدہ نہیں، بلکہ چالاکی، جھوٹ اور تاخیری حربوں سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کر رہا ہے۔”
دھوکے کی گرفت میں مذاکرات
ثالثی کی تمام کوششوں کے باوجود، قابض اسرائیل جنگ بندی کے امکانات کو منظم انداز میں تباہ کر رہا ہے۔ اس کے ہتھیار ہیں: جھوٹا پروپیگنڈا، مسلسل قتل عام، انخلا سے انکار اور جبری ہجرت کی پالیسی — وہ بھی امریکی سرپرستی میں اور عالمی خاموشی کی تاریکی میں۔
ادھر مزاحمت ایک واضح راستہ اختیار کیے ہوئے ہے، مگر قابض اسرائیل ایک ایسی “مصنوعی جنگ بندی” نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو نہ صرف اس کے قبضے کو جائز بنائے بلکہ فلسطینیوں کی مستقل جلاوطنی کو بھی قانونی شکل دے۔
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری محض تماشائی نہ بنے، بلکہ عملی دباؤ ڈالے، جنگ بند کروائے، مہاجرین کو ان کے گھروں میں واپس لایا جائے اور غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ بصورت دیگر، یہ دھوکہ دہی پر مبنی مذاکراتی عمل فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔