غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی بلدیہ نے ایک انتہائی دردناک بیان میں خبردار کیا ہے کہ جاری صہیونی نسل کشی کی جنگ کے سبب پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے باعث غزہ کی پٹی میں بسنے والے بارہ لاکھ سے زائد شہری اور جبری طور پر بے گھر افراد ایک سنگین انسانی المیے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
بلدیہ نے بتایا کہ اتوار کے روز سے قابض صہیونی ریاست کی جانب سے “میکروت” پانی کی لائن کی مکمل بندش کے بعد علاقے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی معطل ہو چکی ہے جبکہ موجودہ پانی کے کنوؤں کو چلانے کے لیے مطلوبہ ایندھن کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
بیان کے مطابق اس وقت جو چند پانی کے کنویں فعال ہیں وہ صرف روزمرہ کی کم از کم ضرورت کا بارہ فیصد حصہ ہی پورا کر پا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہر فرد کو روزانہ کی بنیاد پر صرف پانچ لیٹر سے بھی کم پانی دستیاب ہے، اور بعض بے گھر افراد کے مراکز میں تو پانی کی روزانہ مقدار دو لیٹر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔
بلدیہ نے اس افسوسناک حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ قابض اسرائیل نے اب تک 63 پانی کے کنویں، 4 مرکزی ذخائر اور 115 ہزار میٹر سے زائد پانی کی پائپ لائنز مکمل طور پر تباہ کر دی ہیں۔ مسلسل بمباری کے نتیجے میں شمالی غزہ کی مرکزی ڈی سیلینیشن پلانٹ بھی مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔
اس وقت غزہ شہر کے بڑے حصے کئی دنوں سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ قابض اسرائیلی حملوں کی شدت اور مسلسل نسل کشی کے باعث محفوظ پانی کے ذرائع مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
بلدیہ غزہ نے بتایا کہ ان کے فیلڈ اہلکار اب بھی خطرات کے باوجود مسلسل کام کر رہے ہیں اور مقامی و بین الاقوامی اداروں سے رابطے میں ہیں تاکہ “میکروت” لائن کی بحالی اور غیر فعال کنوؤں کو دوبارہ چالو کیا جا سکے۔
انہوں نے عالمی برادری اور تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس انسانی بحران میں مداخلت کریں تاکہ غزہ کے عوام کو بنیادی خدمات کی مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔
یاد رہے کہ قابض اسرائیل نے امریکہ کی مکمل حمایت سے سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ کی پٹی پر ایک ایسی خونی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف فلسطینیوں کا مکمل خاتمہ ہے۔ یہ نسل کشی قتل عام، بھوک، تباہی، جبری ہجرت اور مظلوموں کے سروں پر بمباری کی بدترین مثال ہے، جس میں اب تک دو لاکھ سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔
اس کے علاوہ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے جبری طور پر بے دخل کیے جا چکے ہیں اور غزہ میں قحط نے کئی بچوں کی جان لے لی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کا انفراسٹرکچر بھی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔