غزہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے نگران ادارے ’’یونیسیف‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی مسلسل جارحیت نے غزہ کے بچوں کی زندگی کو ایک خوفناک اور مستقل تباہی میں بدل دیا ہے۔ گذشتہ 23 مہینوں سے جاری یہ نسل کشی بچوں کے روزمرہ معمولات کا حصہ بن چکی ہے اور ان کے ذہنی و جذباتی سکون کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
یونیسیف کے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ میں ایڈووکیسی اور میڈیا کے ڈائریکٹر عمار عمار نے بتایا کہ غزہ پر قابض اسرائیل کی بمباری اور تشدد نے نہ صرف بچوں کو شہید اور زخمی کیا بلکہ تقریباً 11 لاکھ بچوں کو گہرے ذہنی صدمات سے دوچار کیا ہے، جو ان کی نفسیاتی نشوونما کے لیے نہایت نقصان دہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہو گئی ہیں، جن میں امداد سے محرومی، مسلسل بھوک، جبری نقل مکانی، اسکولوں، اسپتالوں، پانی کے نظام اور گھروں کی تباہی شامل ہے، جو بچوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔
عمار نے مزید کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف بچوں کے خلاف جنگ نہیں بلکہ زندگی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی ایک مہم ہے، جس میں نصف ملین سے زائد افراد شدید بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں، حالانکہ ان اموات کو روکا جا سکتا تھا۔
انہوں نے ہلاکتوں کے المناک مناظر کی طرف بھی اشارہ کیا، جن میں کمزور اور نوزائیدہ بچے بھوک اور بیماری کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ اس صدماتی صورتحال کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا گیا۔
یونیسیف نے خبردار کیا کہ بچوں میں غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ صرف جولائی میں ہی 12 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوئے اور ہر چار میں سے ایک بچہ بدترین غذائی قلت میں مبتلا تھا، جس کے اثرات قریبی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر بچوں کی زندگی کے لیے تباہ کن ہیں۔
عمار نے واضح کیا کہ یونیسیف علاقے میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لا رہا ہے، تاہم خوراک، بنیادی ضروریات اور طبی امداد کی ترسیل تکنیکی رکاوٹوں اور قابض اسرائیل کی پابندیوں کے باعث انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔