انسانی حقوق (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ “گلوبل صمود فلوٹیلا” کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کرے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے روانہ ہوا ہے اور جو گذشتہ 18 برس سے جاری صہیونی محاصرے کے خلاف ایک فیصلہ کن اقدام ہے۔ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی طرف سے کھلے عام فوجی حملے اور سمندری سطح پر اس کارواں کو روکنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
یہ مطالبہ آج منگل کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تونس، الجزائر اور مراکش کی شاخوں کے ایک مشترکہ بیان میں کیا گیا جس کا عنوان تھا: “عرب لیگ کے رکن ممالک پر لازم ہے کہ وہ گلوبل صمود فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کریں”۔
بیان میں کہا گیا کہ تنظیم “گہرے خدشات کا اظہار کرتی ہے کیونکہ فلوٹیلا غزہ کے مظلوم عوام کے لیے ہنگامی اور زندگی بچانے والی انسانی امداد لے کر جا رہا ہے۔ یہ قافلہ فی الوقت ایک نہایت خطرناک علاقے میں ہے اور خدشہ ہے کہ قابض اسرائیل اسے غزہ کے ساحل سے تقریباً 180 کلومیٹر دور، یعنی اسرائیلی سمندری حدود سے باہر ہی، فوجی کارروائی کے ذریعے روکنے کی کوشش کرے گا۔”
قابض اسرائیل کے سرکاری چینل /کان/ نے اتوار کو انکشاف کیا تھا کہ قابض اسرائیلی فوج اس فلوٹیلا پر قبضے کی تیاری کر رہی ہے، ایسا اقدام ماضی کی دو کشتیوں “میڈلین” اور “حنظلہ” کی طرح کھلی سمندری قزاقی کا تسلسل ہوگا جنہیں جون اور جولائی میں صہیونی حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان کے مطابق موجودہ فلوٹیلا “40 سے زائد جہازوں پر مشتمل ہے جس میں 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد شریک ہیں۔ یہ پرامن اقدام غزہ پر مسلط غیر قانونی محاصرہ توڑنے کی ایک عالمی کوشش ہے، ایسے وقت میں جب ڈھائی ملین فلسطینی مکمل بھوک اور نظام صحت کے انہدام سے دوچار ہیں۔”
تنظیم نے زور دیا کہ “عرب لیگ کے رکن ممالک پر قانونی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ غزہ پر مسلط محاصرہ ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔”
ایمنسٹی نے یہ بھی کہا کہ “کسی بھی ممکنہ صہیونی حملے یا رکاوٹ کی کھلے عام مذمت کی جانی چاہیے اور فوری طور پر فلوٹیلا کے تمام شرکاء کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے، کیونکہ انسانی امداد غزہ پہنچانا ایک فوری ضرورت اور عالمی یکجہتی کا فریضہ ہے۔”
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب درجنوں جہاز اجتماعی طور پر غزہ کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے تمام سرحدی گذرگاہیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں اور خوراک، ادویات اور انسانی امداد کی ترسیل روک دی ہے۔ اس مجرمانہ اقدام نے انسانی بحران کو نہ صرف شدید کر دیا بلکہ پورے غزہ کو قحط، بھوک اور موت کے دہانے پر دھکیل دیا ہے، حالانکہ ہزاروں ٹرک امداد سے لدے ہوئے سرحد پر رکے ہیں۔
قابض اسرائیل امریکہ اور یورپی پشت پناہی کے ساتھ 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں کھلی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے جس میں قتل عام، بھوک، تباہی، جلاوطنی اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس درندگی کو نہ بین الاقوامی آوازیں روک سکیں نہ ہی عالمی عدالت انصاف کے احکامات قابض اسرائیل کو باز رکھ سکے۔
اب تک اس نسل کشی میں 2 لاکھ 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ مزید 11 ہزار سے زیادہ فلسطینی لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہیں اور قحط نے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں نگل لی ہیں۔ غزہ کی بیشتر بستیاں اور شہر مکمل طور پر ملبے میں بدل دیے گئے ہیں۔