مقبوضہ بیت المقدس – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )
قابض اسرائیل کے قانون ساز ادارے کنیسٹ نے ایک ایسا متنازعہ مسودہ منظور کیا ہے، جو فلسطینی سرزمین، بالخصوص غرب اردن اور وادی اردن پر صہیونی ریاست کی خودساختہ خودمختاری کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔ 120 رکنی کنیسٹ میں سے 71 ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جو ایک نئے سامراجی باب کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یہ بل کنیسٹ کے گرمیوں کی تعطیلات سے قبل منعقدہ آخری اجلاس میں پیش کیا گیا، جس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو قانونی طور پر پامال کرنا اور غیرقانونی قبضے کو باقاعدہ حیثیت دینا ہے۔
انتہا پسندوں کی حمایت اور سامراجی عزائم
یہ قانون حکومت کے انتہا پسند اتحادیوں کی طرف سے پیش کیا گیا، جن میں صہیونی مذہبی جماعتیں، لیکوڈ، شاس اور اسرائیل بیتینو شامل ہیں۔ ان جماعتوں کا فلسطینیوں کے خلاف سخت گیر موقف، قبضے اور جبر کی کھلی حمایت پر مبنی ہے۔
وزیر انصاف یاریف لیوِن نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صرف قانون سازی نہیں بلکہ “اسرائیلی ریاست کے وجود کے بنیادی نظریے” کی ترجمانی کرتا ہے۔
دوسری جانب، وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے غزہ پر بھی مکمل اسرائیلی کنٹرول کا مطالبہ کیا، جس سے وہاں کے فلسطینی عوام کے لیے مزید قتل عام، جبری بے دخلی اور انسانی بحران کے خدشات کو تقویت ملی ہے۔
علامتی بل، مگر خطرناک پیغام
اگرچہ اس بل کو قانونی طور پر حکومت پر عمل درآمد کا پابند نہیں بنایا گیا، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک خطرناک سیاسی پیغام ہے، جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ قابض اسرائیل، فلسطینی سرزمین پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی
یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینی قوم کے خلاف جاری قبضے، نسل کشی اور توسیع پسندی کو قانونی جواز دینے کی یہ کوشش، عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں پنپ رہی ہے۔
فلسطینی عوام کا عالمی برادری سے مطالبہ
فلسطینی قیادت اور عوام نے عالمی برادری، انصاف پسند حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی، قانونی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کریں، اور قابض اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور قانونی اقدامات اٹھائیں تاکہ فلسطینی قوم کو آزادی، تحفظ اور انصاف فراہم کیا جا سکے۔