غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی سرزمین پر موت کے لیے اب گولی یا بم کی ضرورت نہیں رہی۔ یہاں ایک دن کا فاقہ، بچوں کو دودھ نہ ملنا، یا بوڑھوں کو دو دن پانی نہ ملنا بھی ان کی موت کا پروانہ بن جاتا ہے۔ بس وقت گزرے اور پیٹ خالی ہو تو انسانوں کے نام رجسٹروں سے مٹ جاتے ہیں اور وہ شہداء کی فہرست کا حصہ بن جاتے ہیں۔
غزہ حقیقتاً گھل رہا ہے۔ یہاں لوگ صرف مرتے نہیں، بلکہ پژمردہ ہوتے جاتے ہیں۔ بچوں کی آنکھیں سکڑنے لگتی ہیں، لب خشک ہو جاتے ہیں، اور ہڈیاں ناموں سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں۔ قحط صرف زندگیاں نہیں لیتا، بلکہ چہروں سے پہچان بھی چرا لیتا ہے۔
منگل کی صبح، غزہ کی فضا چار فلسطینیوں کی بھوک سے شہادت کی خبر سے بوجھل تھی۔ ان میں دو شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں، بلکہ مہینوں سے جاری خونی محاصرے اور نہ تھمنے والی جنگ کی روزانہ کی دردناک داستان ہے۔ مگر ہر شہید کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، ہر جسم کے ساتھ کوئی ماں ہوتی ہے، جو آنکھوں کے آخری قطرے تک رو چکی ہوتی ہے۔
الشفا ہسپتال میں شیر خوار یوسف الصفدی نے اپنی آخری سانس لی۔ اسے کوئی بم یا گولی نہیں لگی تھی۔ اس کا جسم فقط اس لیے ہار گیا کیونکہ اس کے حصے کا دودھ دستیاب نہ تھا۔
ناصر میڈیکل کمپلیکس میں خان یونس کے رہائشی خاندان الغلبان نے اپنے بیٹے عبدالجواد کو الوداع کہا۔ وہ اس لقمے کے انتظار میں زندگی ہار گیا، جو اس کے لیے خواب جیسا ہو چکا تھا۔
احمد الحسنات بھی شہداء الاقصیٰ ہسپتال میں خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ایسی خاموشی، جو صرف بھوکے کے حصے میں آتی ہے۔
غزہ میں طبی امداد کے ڈائریکٹر نے کہا: “ہم قحط کے اصل خطرے کی سطح میں داخل ہو چکے ہیں۔”
یہ اعداد و شمار محض رپورٹ نہیں بلکہ ان جانوں کی ترجمانی کرتے ہیں، جو ایسے اسباب سے ختم ہو رہی ہیں جن کا تصور کسی فلسطینی نے اس جنگ سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔
غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور کئی قسم کے جان لیوا خطرات سے دوچار ہیں۔
بلدیہ غزہ کے ترجمان نے اس سنگین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: “فی کس پانی کا یومیہ حصہ پانچ لیٹر سے بھی کم ہے، جو پینے، کھانا پکانے اور نہانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔”
غزہ کے کنویں بمشکل 12 فیصد یومیہ ضرورت کو پورا کر پاتے ہیں، وہ بھی تب جب بجلی ناپید ہے اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس تصویر کو چھپایا نہیں جا رہا۔ انسانی امور کے رابطہ دفتر نے واضح کیا کہ غزہ کو جان بوجھ کر “بھوکا رکھا جا رہا ہے”، اور جو اشیائے خورد و نوش داخل ہو رہی ہیں وہ زندہ رہنے کے لیے ناکافی ہیں۔
اس وقت 20 لاکھ سے زائد فلسطینی ایک تنگ پٹی میں محصور ہیں، جو غزہ کی کل زمین کا صرف 12 فیصد حصہ ہے۔
ڈاکٹر، نرسیں، صحافی، امدادی کارکن — کوئی بھی اس قحط سے محفوظ نہیں۔ ان میں سے کئی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں، صرف تھکن سے نہیں بلکہ بھوک سے۔ یہ انکشاف انروا کے کمشنر جنرل فلیپ لازارینی نے بھی کیا۔
غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ صرف گزشتہ 48 گھنٹوں میں بھوک کے باعث 20 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ جنگ کے آغاز سے اب تک خوراک کی کمی سے شہادت پانے والوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں 71 معصوم بچے شامل ہیں۔