نیویارک – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوامِ متحدہ کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایجنسی ’انروا‘ کے کمشنر جنرل، فِلیپ لازارینی نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جاری شدید قحط اور بھوک کو ختم کرنے کے لیے فضائی امداد کا طریقہ مؤثر نہیں، بلکہ یہ نہ صرف مہنگا اور ناکارہ ہے بلکہ اس سے عام شہریوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
ہفتے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں لازارینی نے کہا کہ “غزہ پر فضائی امداد کا طریقہ محض عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ یہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔”
انہوں نے وضاحت کی کہ فضائی امداد کا یہ طریقہ “نہ تو قحط کا خاتمہ کر سکتا ہے، نہ ہی عملی طور پر مؤثر ہے۔ یہ انتہائی مہنگا، ناقابل اعتبار اور خطرناک ہے۔ امداد کے سامان کے گرنے سے کئی شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ سکتے ہیں۔”
لازارینی نے اس بات پر زور دیا کہ “برّی راستوں کے ذریعے امداد کی ترسیل کہیں زیادہ آسان، مؤثر، فوری، محفوظ اور سب سے بڑھ کر غزہ کے عوام کی عزتِ نفس کے مطابق ہے۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ اردن اور مصر میں انروا کے پاس تقریباً 6 ہزار امدادی ٹرک موجود ہیں جو غزہ میں داخل ہونے کے منتظر ہیں۔ لازارینی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ “غزہ پر عائد محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے، سرحدی راستے کھولے جائیں اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کو غزہ میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی جائے۔”
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ایک قابض اسرائیلی اہلکار نے انکشاف کیا تھا کہ قابض اسرائیل خطے کے تین ممالک کے ساتھ اس بات پر بات چیت کر رہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فضائی امداد کیسے پہنچائی جائے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے ایک قابض اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے خبر دی کہ تل ابیب غیر ملکی ریاستوں کو غزہ پر فضائی امداد گرانے کی اجازت دے گا۔ یہ آپریشن ممکنہ طور پر آئندہ چند روز میں متوقع ہے، جس میں اردن اور متحدہ عرب امارات حصہ لیں گے۔
فضائی امداد کی اس تجویز کو فلسطینی دھڑوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام اداروں نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ کے داخلی راستے کھولے جائیں اور زمینی راستے سے امداد فراہم کی جائے تاکہ انسانی جانوں کو لاحق خطرات سے بچا جا سکے۔
قابض اسرائیل نے ماضی میں بھی فضائی امداد کی اجازت دی تھی، مگر اس عمل کے دوران کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ امداد کے پیکٹ لوگوں کے سروں پر گرنے سے یا غیر محفوظ علاقوں میں گرنے کے باعث درجنوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
آج بروز ہفتہ، غزہ کے سرکاری اطلاعاتی دفتر نے ایک اور دل دہلا دینے والی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری مظالم کی شدت سے ایک ایسی انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جو تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا۔
دفتر کے مطابق اس وقت غزہ میں دو سال سے کم عمر کے ایک لاکھ سے زائد بچے شدید غذائی قلت اور بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں، جن میں سے چالیس ہزار وہ نومولود بچے ہیں جن کی عمر ایک سال سے بھی کم ہے۔ یہ بچے انتہائی سنگین صورتحال سے گزر رہے ہیں اور ان کی زندگی لمحہ بہ لمحہ خطرے میں ہے۔
دفتر کا مزید کہنا تھا کہ قحط اور غذائی قلت کے نتیجے میں اب تک 122 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں 83 بچے شامل ہیں۔ اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ قابض اسرائیل کی طرف سے راستے مسلسل بند ہیں اور محاصرہ بدستور جاری ہے۔
اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور متعدد بین الاقوامی انسانی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے مخصوص غذائی اشیاء ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ان غذاؤں کے بغیر ان معصوم جانوں کو بچانا ممکن نہیں رہے گا۔
غزہ میں جاری نسل کشی، بھوک، ادویات کی قلت اور قابض اسرائیل کی طرف سے جاری ناکہ بندی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے، جس پر عالم انسانیت کو فوری توجہ دینا ہو گی۔