غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ تباہ کن محاصرے نے شہر کو مکمل اور حقیقی قحط کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ دن بہ دن حالات بگڑتے جا رہے ہیں، جبکہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی صرف بھوکے بچوں کی چیخوں اور ماؤں کی سسکیوں سے توڑی جا رہی ہے۔
غزہ آج صرف محصور نہیں، بلکہ ایک زندہ لاش بن چکا ہے۔ بنیادی غذائی اشیاء ختم ہو چکی ہیں، بازار خالی ہو چکے ہیں، اور جو اشیاء دستیاب ہیں ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ہزاروں خاندان اب پانی اور نمک سے پیٹ بھرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
پانی اور نمک… جب کچھ باقی نہ رہے
شمالی غزہ سے بے دخل ہونے والے ایک فلسطینی، سعید النجار، جو آٹھ بچوں کے باپ ہیں، نے مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو میں کہا کہ وہ اور ان کے بچے اگلے چند گھنٹوں میں “پانی اور نمک” کے دور میں داخل ہونے والے ہیں کیونکہ اب روٹی تک کا بندوبست ممکن نہیں رہا۔
سعید کہتے ہیں، “آٹا اب 110 شیکل فی کلو ہو چکا ہے، اور میرے پاس تو ایک شیکل بھی نہیں۔ نہ میرے پاس خود کھانے کو کچھ ہے، نہ بچوں کو دینے کے لیے۔”
ان کا کہنا ہے، “میں اپنے ہمسایوں کو دیکھتا ہوں، خاص طور پر بوڑھے مرد و خواتین، جو بھوک اور تھکن سے نڈھال ہیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا جاتا ہے، لیکن ہسپتال بھی بھر چکے ہیں۔ اب وہاں بھی گنجائش باقی نہیں بچی۔”
جھوٹی شوربہ اور روتے بلکتے بچے
رنا جبر نامی ایک ماں نے مرکز اطلاعات فلسطین کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے “جھوٹ موٹ کا شوربہ” بناتی ہیں۔ تین دن سے نوالہ تک نہیں کھایا، لیکن بچوں کے بھوک سے تڑپتے چہرے دیکھ کر وہ پانی، نمک اور تھوڑی سی مرچیں ابال کر بچوں کو بتاتی ہیں کہ یہ شوربہ ہے۔
رنا کہتی ہیں، “بچوں کو بہلانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوتا ہے، لیکن بھوک ظالم ہے۔ بچوں کی چیخیں میرے دل میں چھریاں چلاتی ہیں۔”
وہ اپنی کیفیت یوں بیان کرتی ہیں، “بھوک پیٹ میں ایسے چبھتی ہے کہ نیند نہیں آتی۔ صرف پانی پیتی ہوں کہ شاید درد کم ہو… مگر کچھ فائدہ نہیں۔ بس اللہ ہی رحم کرے۔”
طبی انتباہ، خاموش موت کا خطرہ
غزہ کی وزارتِ صحت نے شدید خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایمرجنسی وارڈز میں قحط کا شکار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وزارت کے مطابق متعدد بچے مکمل طور پر نڈھال ہو چکے ہیں، اور کئی مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے ہیں۔
ایک سرکاری بیان میں وزارت نے بتایا کہ سینکڑوں شہریوں کے جسم صبر و برداشت کی آخری حدیں پار کر چکے ہیں۔ صورتحال تیزی سے قابو سے باہر ہو رہی ہے۔
قحط کے شہداء
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے اعلان کیا ہے کہ اب تک قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے 690 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 71 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ مسلسل جاری محاصرہ اور بین الاقوامی غفلت اس ہولناک سانحے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
“ہم سب روزہ دار بن گئے ہیں”
ماہر الشرافی، جو الشجاعیہ محلے سے بے گھر ہو چکے ہیں، پچاس افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے ساتھ سخت ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم سب روزہ دار ہو گئے ہیں۔ افطار کبھی ایک روٹی کے ٹکڑے سے کرتے ہیں، کبھی تھوڑے سے دال کے ساتھ، لیکن لگتا ہے کہ اگلے دنوں میں صرف پانی اور نمک ہی نصیب ہوگا، جیسے قید خانوں میں قیدیوں کو ملتا ہے۔”
آخری پکار
غزہ کے اندر سے فریادیں بلند ہو رہی ہیں:
محاصرہ ختم کیا جائے،
راستے کھولے جائیں،
اور فوری انسانی امداد پہنچائی جائے
تاکہ جو زندہ ہیں انہیں موت کے جبڑوں سے بچایا جا سکے۔
قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے دانستہ طور پر غزہ کو قحط زدہ بنانا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔ دنیا کب جاگے گی؟ کب بین الاقوامی ضمیر حرکت میں آئے گا؟ کب فلسطینیوں کی یہ خاموش نسل کشی بند ہو گی؟
غزہ چیخ رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ غزہ میں بچے بھوک سے جان دے رہے ہیں اور دنیا عیش و عشرت میں مصروف ہے۔