غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )
غزہ پٹی کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی منظم بھوک کی پالیسی کے نتیجے میں
“گیلین بیری سنڈروم” (Guillain-Barré Syndrome – GBS)
کے 8 مریض شہید ہو چکے ہیں۔
وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل، منیر البرش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ:
“اقوام متحدہ کے اعلان کردہ قحط کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں گیلین بیری سنڈروم کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور اب درجنوں مریضوں کو زندہ رکھنے کے لیے مصنوعی سانس لینے والی مشینوں کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ “اس بیماری سے اب تک 8 مریض شہید ہو چکے ہیں، جو پٹی میں کل مریضوں کا 10.6 فیصد ہیں، جبکہ باقی مریض آہستہ آہستہ موت کے قریب جا رہے ہیں۔”
منیر البرش کے مطابق آلودہ پانی، خوراک کی کمی، اور قابض اسرائیل کی جانب سے بھوک کی پالیسی سے پیدا ہونے والی شدید غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بنیادی ادویات، مثلاً ایمونوگلوبولن اور پلازما فیریسس کی عدم دستیابی نے بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان حالات میں درجنوں مریضوں کو سانس کے لیے وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
“گیلین بیری سنڈروم” ایک نایاب بیماری ہے جو ابتدا میں نچلے اعضا کو متاثر کرتی ہے اور پھر اعصابی نظام کے ذریعے پھیل کر سانس کی نسوں کو بھی ناکارہ بنا دیتی ہے۔
یہ واقعات اس وقت سامنے آ رہے ہیں جب غزہ میں قابض اسرائیل کی بھوک کی پالیسی کے باعث بچوں میں غذائی قلت اور قوتِ مدافعت کی کمزوری بڑھ رہی ہے، جس سے نہ صرف عام بیماریاں بلکہ نایاب امراض بھی جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔
منیر البرش نے کہا کہ: “غزہ میں بیماری اب اپنے شکار کا انتخاب نہیں کرتی، بلکہ یہاں کی زمین درد اور تکلیف کے لیے زرخیز ماحول بن چکی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: “آلودہ پانی، نایاب خوراک اور غذائی قلت، یہ سب ایسے غیر مرئی دشمن ہیں جو میزائلوں سے پہلے آتے ہیں اور خاموشی سے جانیں لے رہے ہیں۔”
انہوں نے عالمی برادری سے انسانی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مریضوں کو بچانا صرف بیانات سے ممکن نہیں، بلکہ فوری علاج کی فراہمی اور بھوک و بمباری کے ریکارڈ میں مزید اموات کو روکنے سے ممکن ہے۔
غزہ کے ہسپتالوں میں ادویات اور طبی سامان کی شدید کمی ہے اور ان کی تشخیصی و علاجی صلاحیتیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ 2 مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کی تمام گزرگاہیں بند کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی انسانی امداد کا داخلہ ناممکن ہو گیا ہے۔ اس صورتحال نے پٹی کو قحط کی لپیٹ میں لے لیا ہے، جبکہ امدادی ٹرک سرحدوں پر رکے ہوئے ہیں۔ قابض اسرائیل صرف محدود مقدار میں امداد داخل ہونے دیتا ہے جو فلسطینی عوام کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔
بدھ کے روز وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ 7 اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل کی بھوک کی پالیسی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 313 ہو گئی ہے، جن میں 119 بچے شامل ہیں۔
غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق، صرف گزشتہ 30 دنوں میں غزہ میں داخل ہونے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد 2,654 رہی، جبکہ ضرورت 18,000 ٹرکوں کی تھی۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور (OCHA) کی ترجمان، اولگا چیریفکو نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کے جاری محاصرے اور بھوک کی پالیسی کے باعث غزہ میں قحط تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
امریکہ کی حمایت سے قابض اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، جس میں قتل و غارت، بھوک، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ وہ نہ صرف بین الاقوامی مطالبات بلکہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کو بھی نظرانداز کر رہا ہے۔
اس نسل کشی کے نتیجے میں اب تک 62,895 فلسطینی شہید، 158,927 زخمی، اور 9,000 سے زائد لاپتہ ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ صرف بھوک کی وجہ سے اب تک 313 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 119 بچے شامل ہیں۔