مقبوضہ بیت المقدس ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی استعماری حکومت نے گزشتہ چند ہفتوں سے مقبوضہ بیت المقدس کے شمال مشرقی علاقے میں حزما اور جبع قصبوں کے درمیان ایک نئی شاہراہ تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد صہیونی آبادکاری کو مستحکم کرنا، فلسطینی زمینوں پر قبضہ جمانا، مقامی آبادی کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا اور علاقے کے جغرافیائی و آبادیاتی ڈھانچے کو مسخ کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے تحت بھاری مشینری کے ذریعے زرعی زمینوں کی وسیع پیمانے پر ظالمانہ کھدائی کی جا رہی ہے، کسانوں کی زمینیں اور املاک چھینی جا رہی ہیں، کھیت تباہ اور کھڑی فصلیں برباد کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے جو مقامی آبادی کی غذائی سکیورٹی پر بھی کاری ضرب ہے اور انہیں شدید معاشی و سماجی دباؤ سے دوچار کر رہا ہے۔
بدوی حقوق اور نشانہ بنائے گئے علاقوں کے دفاع کے لیے سرگرم تنظیم “البیدر” نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ استعماری سڑکوں کی تعمیر محض زمین کی کھدائی یا قبضے تک محدود نہیں بلکہ ان کے ذریعے فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر سخت قدغن لگائی جا رہی ہے، دیہات اور بستیوں کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے اور صہیونی کالونیوں کو آپس میں جوڑ کر ان کی گرفت کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔
تنظیم نے واضح کیا کہ یہ تمام اقدامات ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں جو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہوئے آبادکاری کو حتمی اور ناقابلِ واپسی حقیقت میں بدلنے کی سازش ہے۔ ان پالیسیوں نے فلسطینی معاشرے پر نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور نفسیاتی سطح پر بھی تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ اپنی زمینوں سے محرومی اور املاک کے خطرے نے لوگوں کو مسلسل اضطراب اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
“البیدر” کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ بچے، خواتین اور بزرگ ہیں جن کے لیے اسکول، ہسپتال اور بازار تک پہنچنا مشکل ہو چکا ہے اور زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔
تنظیم نے یاد دلایا کہ یہ منصوبے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان میں 1949ء کی چوتھی جنیوا کنونشن بھی شامل ہے جو مقبوضہ علاقوں میں شہری املاک کے قبضے کو سختی سے ممنوع قرار دیتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (سنہ 2016ء) بھی جس میں صہیونی آبادکاری کو غیر قانونی اور فوری طور پر بند کرنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل ایک منظم پالیسی کے تحت فلسطینی زمینوں کو ہتھیانے، گھروں کو مسمار کرنے، موجودہ کالونیوں کو وسعت دینے اور نئی آبادیاں بسانے کے ساتھ ساتھ زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضے اور کھدائی کر رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے جبری ہجرت پر مجبور کرنا اور “گریٹر اسرائیل” کے خواب کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
“البیدر” نے عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور انصاف پسند قوتوں پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان غیر قانونی اقدامات کو روکنے کے لیے سرگرم ہوں، قابض اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ ٹھہرائیں، ہر درندگی اور قبضے کی دستاویزی شہادت کو عالمی سطح پر عام کریں اور فلسطینی عوام کی صبر آزما جدوجہد کو بھرپور حمایت فراہم کریں۔
تنظیم نے متنبہ کیا کہ حزما اور جبع کے درمیان جاری منصوبہ محض ایک سڑک نہیں بلکہ ایک خطرناک حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو جڑ سے اکھاڑنا اور ان کی سرزمین پر صہیونی کنٹرول کو ناقابلِ واپسی بنانا ہے۔
فلسطینی اداروں کے مطابق سنہ 1967ء سے قابض اسرائیل نے مغربی کنارے میں 710 صہیونی کالونیاں اور فوجی اڈے قائم کر لیے ہیں، یعنی اوسطاً ہر آٹھ کلومیٹر مربع میں ایک کالونی۔
سات اکتوبر سنہ 2023ء کو غزہ پر قابض اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے میں بھی صہیونی فوج اور دہشت گرد آبادکاروں کی درندگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق اب تک مغربی کنارے میں کم از کم 1016 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، قریب 7 ہزار زخمی ہیں اور 18 ہزار 500 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔