غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات کے تناظر میں سامنے آنے والے ایک تازہ رائے عامہ کے جائزے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت مزاحمتی قوتوں کے مطالبات کی مکمل تائید کرتی ہے۔ اس سروے نے نہ صرف فلسطینیوں کے جذبۂ استقلال اور حریت کی عکاسی کی، بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ قابض اسرائیل کی بربریت کے باوجود اہلِ غزہ اپنی مزاحمت پر ثابت قدم ہیں۔
یہ سروے مرکزِ فلسطینی برائے مطالعات و تحقیقات نے معروف بین الاقوامی ادارے “آرٹس انٹرنیشنل” کے اشتراک سے 6 جولائی 2025 سے چار دن تک جاری رکھا۔ اس دوران جبری طور پر بےدخل کیے گئے فلسطینی شہریوں میں سے 3,540 افراد سے مختلف مقامات پر رائے لی گئی۔
نتائج کے مطابق 93.4 فیصد شرکاء نے مزاحمتی گروہوں کے مطالبات کو انسانی، منطقی اور ناگزیر قرار دیا، اور کہا کہ ان شرائط کو کسی بھی مستقبل کے معاہدے میں شامل کرنا لازمی ہے۔ خاص طور پر اسرائیلی انخلاء کے واضح نقشے، جنگ کے خاتمے کی بین الاقوامی ضمانتوں، اور انسانی امداد کی بحالی جیسے نکات پر کسی بھی سمجھوتے کو سختی سے مسترد کیا گیا۔
سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 80 فیصد شرکاء کے ایک یا زائد قریبی رشتہ دار حالیہ جنگ میں شہید ہو چکے ہیں، جو اس جدوجہد میں عوام کی بے مثال قربانیوں کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے۔
اسی تحقیق میں فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کی کارکردگی پر بھی گہری مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ 84 فیصد شرکاء نے فلسطینی اتھارٹی پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صہیونی توسیع، یہودی بستیوں کے قیام اور جبری ہجرت کے خلاف کوئی مؤثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے، باوجود اس کے کہ اس نے امریکہ، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں قربتیں بڑھانے کی کوشش کی۔
اس کے برعکس، اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کی عوامی حمایت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پچھلے تین ماہ کے دوران اس کی حمایت 58 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی عوام اب حقیقی قیادت اور مزاحمتی نظریے کو ہی نجات کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔
سروے میں شریک دو تہائی سے زائد افراد نے کہا کہ قابض اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو کچلنے اور قوم کو جلاوطن کرنے میں ناکام رہے گا۔ یہ ان کی امید، عزم اور حوصلے کی زندہ مثال ہے۔
قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023ء سے امریکہ کی کھلی پشت پناہی میں غزہ پر ایک ظالمانہ جنگ مسلط کر رکھی ہے، جس کا مقصد نسل کشی، اجتماعی قتل، قحط، تباہی اور جبری ہجرت کے ذریعے فلسطینی قوم کو مٹانا ہے۔
یہ درندگی بین الاقوامی برادری کی آنکھوں کے سامنے جاری ہے، حتیٰ کہ عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
اب تک جاری بمباری، محاصرے اور بھوک کے باعث کم از کم 195,000 فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 11,000 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ غذائی قلت اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث سینکڑوں بچے بھوک اور بیماری کے باعث دم توڑ چکے ہیں۔