غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غاصب، فاشسٹ، صہیونی درندوں نے فلسطین کی سرزمین کو ایک اور عظیم سپوت سے محروم کر دیا۔ وہ مردِ مجاہد جس نے اپنی زندگی عدل، علم، جدوجہد اور عوامی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ فلسطینی قانون دان، سابق وزیرِ انصاف، قانون ساز اسمبلی کے رکن اور حماس کے فعال رہنما محمد فرج الغول قابض اسرائیل کے ایک وحشیانہ فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت نے ایک بار پھر اس سچ کو آشکار کر دیا کہ قابض دشمن صرف ہتھیاروں کو نہیں، بلکہ فکر اور علم کے امینوں کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بناتا ہے۔
علم، خدمت، قربانی — ایک مکمل زندگی کا عکس
محمد فرج الغول 1957ء میں جنوبی غزہ کے شہر رفح میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی، پھر امریکہ کی “یونیورسٹی آف دی ورلڈ” سے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق میں ماسٹرز کیا۔ مصر کے مشہور اسلامی ادارے “الباقوری انسٹیٹیوٹ” سے دینی علوم میں بھی تعلیم حاصل کی۔
ان کی شخصیت فلسطین میں قانون، حقوقِ انسانی اور جدوجہدِ آزادی کے درمیان ایک روشن پُل تھی۔ وہ نہ صرف قانونی محاذ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے، بلکہ عملی طور پر فلسطینی تحریکِ مزاحمت کی صفِ اوّل میں شریک رہے۔ وہ حماس کے بانی رہنما شہید شیخ احمد یاسین کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔
انہوں نے “دار الحق والقانون لحقوق الإنسان” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، قیدیوں کے لیے وکالت کی، اور قابض اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا۔
قانونی و سیاسی جدوجہد کا استعارہ
سنہ 2007ء میں حماس کے پارلیمانی بلاک کی ٹکٹ پر رکنِ قانون ساز کونسل منتخب ہونے والے محمد فرج الغول، غزہ سے قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ انہیں 71 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے اپنا نمائندہ چنا۔ وہ قانون ساز اسمبلی کی قانونی کمیٹی کے سربراہ بھی رہے اور اقوامِ متحدہ کی “گولڈسٹون رپورٹ” کے حوالے سے تشکیل دی گئی حکومتی کمیٹی کی قیادت کی، جس کا مقصد قابض اسرائیل کے 2009ء کے حملے پر جواب طلبی تھا۔
انہوں نے حماس کی حکومت میں وزیرِ اسیران اور بعد ازاں وزیرِ انصاف کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے۔ ان کی ہر تقریر، ہر دستاویز اور ہر کوشش فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے ایک نعرۂ صداقت تھی۔ وہ کبھی قابض اسرائیل کے خلاف اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر اپنے نظریے پر ڈٹے رہے۔
شہادت — ایک اور چراغِ عدل گل کر دیا گیا
منگل کی صبح جب غزہ کی فضا ایک بار پھر بمباری سے گونج رہی تھی، قابض اسرائیل نے ایک اور علمی اور فکری قافلے کو نشانہ بنایا۔ محمد فرج الغول اپنے گھر پر تھے کہ دشمن کے طیارے نے ان پر حملہ کیا۔ وہ سفرِ شہادت پر روانہ ہو گئے، اس قافلے میں شامل ہو گئے جو قوم کی بیداری کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔
ان کی شہادت صرف ایک انسان کے جان کا زیاں نہیں، بلکہ ایک نظریے، ایک فکری محاذ، ایک قانونی جدوجہد اور ایک مثالی قیادت کا فقدان ہے۔
حماس کی جانب سے خراجِ عقیدت
حماس نے محمد فرج الغول کی شہادت پر ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ایک تعزیتی بیان میں حماس نے کہا:
“ہم اللہ کے حضور محمد فرج الغول کی شہادت پر سرخرو ہیں، جو دشمن کے ایک بزدلانہ حملے میں راہِ حق پر چلتے ہوئے شہید ہو گئے۔ وہ مظلوموں کی آواز تھے، سچائی کے علمبردار تھے اور فلسطین کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کے محافظ تھے۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ بارہا قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید کیے گئے، مگر ان کی آواز رکی نہ جھکی۔ ان کی جدوجہد آج بھی فلسطینی قوم کے دلوں میں زندہ ہے۔
فلسطینی قوم کا ایک قیمتی سرمایہ چھین لیا گیا
یہ المناک واقعہ اس پس منظر میں پیش آیا جب 7 اکتوبر 2023ء سے جاری قابض اسرائیل کی درندگی کے نتیجے میں 1 لاکھ 97 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ 10 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، جب کہ غزہ کا چپہ چپہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس صورتِ حال کو نسل کشی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دے چکی ہیں۔
محمد فرج الغول کی شہادت سے فلسطین ایک عظیم قانون ساز شخصیت، غزہ ایک سچے خادم، اور امت ایک مثالی سپاہی سے محروم ہو گئی۔ لیکن ان کے لہو کا چراغ تحریکِ آزادیِ فلسطین کو مزید روشن کرتا رہے گا۔