Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل، غزہ میں قابض اسرائیل کی حیاتیاتی نسل کشی کا بھیانک جرم

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں ایک نسل کو جنم لینے سے پہلے ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جا رہا ہے۔ یہ محض ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک منظم حیاتیاتی نسل کشی ہے، جس کا ہدف صرف موجودہ نسل نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کی سانسیں بھی ہیں۔

قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، مکمل محاصرہ، خوراک اور ادویات کی بندش، اسپتالوں کی تباہی، اور زندگی کی بنیادی سہولیات کے قتلِ عام نے غزہ کو موت کی وادی بنا دیا ہے۔ مگر اس بار ہدف وہ بچے ہیں جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہیں، اور وہ مائیں ہیں جو بھوک، بےگھری اور خوف کے سائے میں امید کے چراغ جلائے بیٹھی ہیں۔

اب غزہ میں ہر ولادت ایک مقتل ہے، ہر ماں کا درد ایک جنازہ، اور ہر نوزائیدہ کی سانس قابض اسرائیل کے ظلم کا آخری ہدف بن چکی ہے۔

یہ محض اعداد نہیں، المیے کی چیخیں ہیں

مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق، وزارتِ صحت نے سنہ 2025ء کے صرف پہلے چھ ماہ میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔

  • 17,000 ولادتوں میں 2,600 بچے ماں کی کوکھ میں ہی دم توڑ گئے۔

  • 220 جنین حمل کے دوران یا ولادت سے چند لمحے قبل زندگی کی جنگ ہار گئے۔

  • 21 نوزائیدہ بچے پیدائش کے پہلے ہی دن دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • 1,600 بچے شدید وزن کی کمی کے ساتھ پیدا ہوئے۔

  • 2,535 نوزائیدہ بچوں کو نازک حالت میں انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا گیا۔

  • 1,460 ولادتیں قبل از وقت ہوئیں۔

یہ صرف اعداد نہیں، ہر اس دل کی فریاد ہیں جو زندگی کی تلاش میں تھا، مگر قابض اسرائیل کی وحشت نے اسے دنیا کی روشنی دیکھنے نہ دی۔

ماؤں کی چیخیں، موت کی گواہی دیتی ہیں

شموخ کرسوع صرف 20 سال کی عمر میں ماں بننے کا خواب لے کر زندہ لاش بن چکی ہے:
“2 جولائی 2025ء کو میں نے 27 ہفتوں کے حمل میں اپنے بیٹے معین کو جنم دیا۔ اس کا وزن صرف ایک کلو تھا۔ پھیپھڑے، جگر، گردے… کچھ بھی مکمل نہ تھا۔ میں روز دو وقت صرف دال پر گزارہ کرتی تھی۔ کوئی دوا، نہ کوئی مدد۔ معین کو پیدائش کے فوراً بعد نگہداشت میں لے جایا گیا، مگر صرف دو دن بعد وہ دنیا سے چلا گیا۔”

‘م.ق’ نامی خاتون اپنی بیٹی خدیجہ کی کہانی سسکیوں میں سناتی ہیں:
“خدیجہ آٹھویں مہینے میں پیدا ہوئی، مگر اس کا جسم ناقص تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ سب روز کے دھوئیں، سفید فاسفورس اور ناقص خوراک کا نتیجہ ہے۔ میری خوراک صرف دال اور تھوڑی سی میکرونی پر مشتمل تھی۔ چھٹے مہینے میں اس کے جسمانی نقائص ظاہر ہونے لگے، اور آٹھویں مہینے میں وہ میری بانہوں میں دم توڑ گئی۔”

قحط: ایک مکروہ جنگی ہتھیار

ڈاکٹر ناجی القرشلی کہتے ہیں:
“مارچ 2025ء سے روزانہ چار سے پانچ کیسز ایسے آتے ہیں جن میں یا تو حمل ضائع ہو جاتا ہے، یا بچے مر جاتے ہیں، یا ولادت بہت قبل از وقت ہو جاتی ہے۔ یہ سب قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ بھوک اور غذائی قلت کا نتیجہ ہے۔”

ڈاکٹر نعیم ایوب، اسپتال الصحابہ کے سربراہ، کہتے ہیں:
“وہ مائیں جو کسی طرح حمل مکمل کر بھی لیتی ہیں، ان کے بچے کمزور، کم وزن یا پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ خواتین کے دل اور دماغی نظام متاثر ہو چکے ہیں۔ کئی مائیں حمل کے دوران 10 سے 12 کلوگرام وزن کھو چکی ہیں۔”

ایک اور ماں، ایک اور لاش

چھتیس سالہ ‘فلسطین’، دو بچوں کی جدائی کا زخم سینے میں چھپائے کہتی ہیں:
“مئی 2024ء میں میں نے چھٹے مہینے میں بچہ کھو دیا۔ ہم صرف زیتون کی چٹنی کھاتے تھے، روٹی بھی میسر نہ تھی۔ خون بہنے لگا اور مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گی۔
پھر 7 جولائی 2025ء کو میرا دوسرا بیٹا، یوسف، 25 ہفتوں کے حمل میں پیدا ہوا۔ اس کا وزن صرف 700 گرام تھا۔ دو دن آکسیجن اور محلول پر رہا، پھر میری گود خالی ہو گئی۔
اب میں اپنے باقی بچوں کو دیکھ کر ہر لمحہ ڈرتی ہوں… کیا وہ بھی بھوک کے ہاتھوں چھن جائیں گے؟”

خوف، خاموشی، اور ایک پوری نسل کا خاتمہ

یہ غزہ کی وہ سچائیاں ہیں جن پر دنیا کی خاموشی مزید گھناؤنی بنتی جا رہی ہے۔ یہاں ماں کی کوکھ کو ہی میدانِ جنگ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں قابض اسرائیل صرف مکان نہیں، نسلیں مٹا رہا ہے۔

محصور غزہ میں اسپتال بجلی سے محروم، دوا سے خالی، اور طبی آلات ناکارہ ہو چکے ہیں۔ 2 مارچ سے قابض اسرائیل نے تمام بارڈر بند کر دیے ہیں، اور قحط نے ہر دروازے پر دستک دینا شروع کر دی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan