Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کی قتل گاہ میں بھوک سے نڈھال بچوں کی صفائی والدین کے لیے ایک منفرد چیلنج

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  غزہ میں بے گھر فلسطینی شہری جنہیں پرانے اور پھٹےخیموں میں پناہ لینا پڑی ہے، روزانہ پانی اور صابن کی تلاش میں ایک نہ ختم ہونے والی اذیت جھیل رہے ہیں۔ پانی اور صابن اب محض ضرورت نہیں بلکہ زندگی اور بقا کی علامت بن گئے ہیں۔ بہت سے بچوں کا سب سے بڑا خواب یہ رہ گیا ہے کہ وہ دھول اور پسینے کی چپچپاہٹ کے بغیر سو سکیں اور جب آنکھ کھلے تو دھوئیں اور نمی کے بجائے صابن کی خوشبو محسوس ہو۔

گیارہ سالہ حمزہ الحدّاد ایک پرانی بوسیدہ چادر کے کنارے بیٹھا اپنے ساتھی بچوں کو کھیلتے دیکھ رہا تھا۔ وہ قریب آ کر دھیرے سے بولا جیسے کوئی بھاری راز بیان کر رہا ہو: “مجھے اپنی بو سے نفرت ہے”۔

وہ نہ کسی کھلونے کا مطالبہ کر رہا تھا نہ کسی مٹھائی کا، بلکہ کئی دنوں سے جسم پر چپکے ایک ایسی احساس کی شکایت کر رہا تھا جو اس کا اعتماد چھین لیتا ہے اور اسے کھیل سے الگ کر دیتا ہے۔

ناممکن انتخاب: کھانا یا نہانا؟

خیموں میں ہر بوند پانی ایک فیصلہ کن سوال بن جاتی ہے ۔ یہ پینے اور کھانا پکانے میں استعمال ہو یا نہانے اور پسینے و خارش سے نجات پانے میں؟

پانچ بچوں کی ماں ام یحییٰ بتاتی ہیں کہ “کبھی کبھار ہم نہانے کے لیے پانی کا گیلن خرید لیتے ہیں، چاہے کھانے کے لیے پیسے نہ بچیں، کیونکہ بیماری کسی بھی کھانے سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے”۔

کچھ لوگ لمبا اور خطرناک سفر طے کر کے سمندر تک پہنچتے ہیں تاکہ اس کے کھارے پانی سے نہا سکیں۔ النصیرات کے ساحل پر 14 سالہ محمد ایک پلاسٹک کی بالٹی میں سر دھو رہا تھا۔ “پانی کھارا ہے لیکن جُؤوں اور خارش سے بہتر ہے اور اس کے بعد ہم خود کو انسان محسوس کرتے ہیں”۔

سونے کا حمام

نادرہ البیرم نے پبلک حمام کے حالات قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنے سنہری کنگن بیچ کر لکڑی کے تختوں اور پلاسٹک کی چادروں سے خیمے میں ایک چھوٹا سا حمام بنا لیا۔ وہ اپنا حجاب درست کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ “صفائی کوئی عیاشی نہیں، یہ بیماری سے بچاؤ اور عزت کا تحفظ ہے۔ میں اپنی بیٹی کو عوامی قطار میں مردوں کے بیچ کھڑا نہیں کر سکتی”۔

خاموش نفسیاتی تشدد

صحتِ نفس کے ماہر پروفیسر درداح الشاعر کہتے ہیں کہ صفائی سے محرومی بچوں پر گہرا نفسیاتی اثر ڈالتی ہےکہ “فلسطینی بچہ ایسی تربیت پاتا ہے جس میں صفائی اور نجی زندگی کی قدر ہوتی ہے، لیکن آج اسے پانی کی کمی والے عوامی حمامات استعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ احساسِ شرمندگی اور حقارت پیدا کرتا ہے جو دائمی ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے”۔

وہ اسے غیر مستقیم نفسیاتی تشدد کی بدترین شکل قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ براہِ راست انسانی عزت پر حملہ ہے۔ وہ اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ جب بچہ گندگی کو معمول سمجھنے لگتا ہے تو وہ اپنی حالت کا شعور کھو بیٹھتا ہے اور مزید تنہائی اور دوسروں کی بے رخی کا شکار ہو جاتا ہے۔

چھوٹے جسموں پر بیماریوں کا گھات

میدانی طبی مراکز میں ڈاکٹر جلدی امراض اور ہاضمے کی بیماریوں میں خطرناک اضافہ ریکارڈ کر رہے ہیں، جن میں خارش، زخم، پیچش اور دماغی بخار شامل ہیں۔

ڈاکٹر جمعہ الشاعر کے مطابق: “صفائی بیماری کے خلاف پہلا دفاعی حصار ہے، جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو بچہ بیکٹیریا اور وائرس کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ بیماریاں گنجان بے گھر کیمپوں میں تیزی سے پھیلتی ہیں اور بند گھیروں میں وبا کی صورت اختیار کر لیتی ہیں”۔

ایک عارضی کلینک میں 8 سالہ لیث اپنی خارش زدہ بازو کو کھجاتے ہوئے رو رہا تھا۔ اس کی ماں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا: “نہ صابن ہے نہ کافی پانی، میرا بیٹا سونے سے ڈرتا ہے کیونکہ خارش رات کو بڑھ جاتی ہے”۔

اگست کے آغاز میں جاری بیان میں انروا نے واضح کیا کہ غزہ میں صابن کا حصول تقریباً ناممکن ہو گیا ہے اور صفائی کے سامان کی باقاعدہ فراہمی صرف اقوام متحدہ کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan