Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

“روشنی کا تعاقب کرتی غزہ کی ننھی سیلا جس کی ماں کا آخری ارمان اپنی لخت جگر کی بینائی بچانا ہے”

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  غزہ کی معصوم سیلا جب صرف پانچ ماہ کی تھی، تب سے اس نے دنیا کو ویسا نہیں دیکھا جیسا ہم دیکھتے ہیں۔ ماں کا چہرہ پہچان سکی، نہ ہاتھوں میں کھلونا جانا، نہ آسمان کا رنگ دیکھا۔ اس کی چھوٹی سی دنیا میں بس ایک جستجو تھی۔ وہ جستجو روشنی کی تلاش تھی جہاں بھی اسے کوئی جھلک ملتی، وہ اس کے پیچھے دوڑ پڑتی، جیسے زندگی کی آخری کرن کو تھامنا چاہتی ہو۔

ہر صبح وہ کھڑکی کی طرف سر اٹھا کر دھیرے سے پوچھتی “ماما… سورج نکل آیا؟”
اس کی ماں 38 سالہ رنا محیسن آنسو چھپاتے ہوئے ہلکی سی کانپتی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتیں “ہاں بیٹی۔ سورج ہمیشہ تمہارے لیے چمکتا ہے”۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ سیلا کی آنکھوں میں سورج کا نور دن بہ دن مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

ابتدا میں رنا کو لگا شاید بیٹی عام بچوں کی طرح روشنی پسند کرتی ہے، مگر جب سیلا دیواروں سے ٹکرانے لگی اور ماں کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو وہ سمجھ گئیں کہ معاملہ سنگین ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے پیدائشی موتیا ہے اور فوری آپریشن کے بعد لینز لگانے کی ضرورت ہے۔وہ بھی غزہ سے باہر۔

پہلا آپریشن ہوا مگر یہ صرف ایک لمبے سفر کی پہلی منزل تھی، ایک ایسا سفر جو جنگ اور محاصرے نے شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔

جب سیلا ایک سال کی ہوئی غزہ پر جنگ مسلط ہو چکی تھی۔ سرحدیں بند کر دی گئیں، علاج کے تمام کاغذات اور سفارشات سرحدوں کے اس پار اٹک گئیں۔

رنا اپنی بیٹی کی ایک پرانی تصویر تھامے کہتی ہیں “وہ روشنی دیکھ کر ہنستی تھی، مگر اب شام ہوتے ہی کہتی ہے ماما۔ میں سونا چاہتی ہوں، رات میں کچھ دکھائی نہیں دیتا”۔

اب سیلا کی بینائی بچانے کے لیے لینز اور قرنیہ کے حلقے لگانا ناگزیر ہیں۔ تاخیر کا مطلب ہے ہمیشہ کے لیے اندھیرا۔ ہر گزرتے دن اس کے اندر کی ایک اور روشنی بجھ جاتی ہے۔

رنا اب کاغذوں اور فائلوں کی فکر نہیں کرتیں، بس ایک خوف ستاتا ہےکہ “اگر بیٹی نے بینائی کھو دی تو وہ اپنے شہید بھائیوں کی تصویریں کیسے دیکھے گی؟ انہیں یاد کیسے رکھے گی؟”

رنا کا پہلا بیٹا 15 سال کا بچہ تھا جو قابض اسرائیل کے فضائی حملے میں شہید ہوا جب وہ اسکول آف دی گفٹڈ میں تھا۔ چند ہفتوں بعد 19 سالہ دوسرا بیٹا بھی شمال مغربی غزہ میں امداد کا انتظار کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ اب رنا کے پاس دنیا میں جو کچھ بچا ہے۔وہ صرف سیلا ہے۔

رات کو ماں بیٹی ایک چھوٹی سی شمع جلا کر بیٹھتی ہیں تاکہ تھوڑا سا نور قائم رہے۔ سیلا اسے نرمی سے پکڑ کر کہتی ہے “ماما… یہ شمع اچھی ہے مگر چھوٹی، سورج جیسی نہیں”۔
رنا اسے سینے سے لگا کر اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا لیتی ہیں تاکہ بیٹی کو ان کی آنکھوں کے آنسو اور بجھتی ہوئی امید نہ دکھائی دے۔

رنا کی خواہش بس اتنی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بچا سکیں، اسے دنیا دیکھنے کا حق واپس دلا سکیں۔ زندگی دیکھنے کا حق۔اپنی ماں کی مسکراہٹ دیکھنے کا حق۔

مقامی طبی ذرائع کے مطابق غزہ میں پچیس ہزار سے زائد مریض ایک سال سے زیادہ عرصے سے رفح بارڈر کے کھلنے کے منتظر ہیں، جن میں سیلا جیسے بچے بھی شامل ہیں، جن کی صرف ایک آرزو ہےکہ وہ جئیں، وہ دیکھ سکیں، ان کے دل کا آخری چراغ بجھنے نہ پائے۔

سیلا، جو ابھی تک اپنے ننھے ہاتھوں سے روشنی کو تھامے ہوئے ہے، ہمیشہ کے لیے اس سے محروم ہو سکتی ہے اگر اس کی آنکھیں محاصرے کے پیچھے یوں ہی قید رہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan