غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ شہر کے ’’العیدون ہسپتال‘‘ کے وارڈز میں میڈیکل آلات کی آوازیں اور مانیٹرز کے الارم ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ ان کمروں میں تھکے ہارے ڈاکٹر گھنٹوں تک زخمیوں کی زندگی بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جبکہ قابض اسرائیل کے 22 ماہ سے جاری محاصرے نے خوراک اور دواؤں کی شدید قلت پیدا کر دی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ’’منظم بھوک‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں جس نے روٹی کو نایاب نعمت بنا دیا ہے اور چینی و پروٹین کی قیمتیں ناقابلِ یقین حد تک بڑھا دی ہیں۔ عالمی فوڈ پروگرام کے مطابق دو اعشاریہ چار ملین کی آبادی والے غزہ کے ایک تہائی لوگ کئی دن سے کچھ کھائے بغیر گزر بسر کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں قحط ختم کرنے کے لیے روزانہ سینکڑوں ٹرک امداد لانے کی ضرورت ہے، مگر قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے گذرگاہیں بند کر کے امداد روک دی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں ٹرک سرحد پر اٹکے ہوئے ہیں۔
سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری اسرائیلی جنگ میں اب تک وزارتِ صحت غزہ کے مطابق 61 ہزار 430 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 53 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً 9 ہزار لوگ لاپتہ ہیں۔
وزن کی کمی اور جان لیوا تھکن
محمد الطیب 33 سالہ ماہر چشم و جراحی بتاتے ہیں کہ جنگ سے پہلے وہ مہینے میں ایک بار آپریشن کرتے تھے مگر اب روزانہ تین آپریشن کرنے پڑ رہے ہیں اور وہ بھی دن میں صرف ایک معمولی کھانے کے ساتھ۔ مارچ سے اب تک وہ اپنا دس کلو وزن کھو چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ “میں کئی کلومیٹر پیدل ہسپتال جاتا ہوں۔ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے بھی چینی یا پروٹین میسر نہیں”۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر عبدالسلام صباح بتاتے ہیں کہ “ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں تھکن اور بھوک سے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور ہمیں انہیں کام جاری رکھنے کے لیے ڈرپ لگانی پڑتی ہے”۔ وہ اس حقیقت کو کٹھن اور تلخ قرار دیتے ہیں کہ زیادہ تر عملہ خالی پیٹ ڈیوٹی پر آتا ہے اور دن میں صرف ایک کھانا کھاتا ہے۔
معمولی کھانے اور خطرناک حالات
ایاد ابو کرش سربراہ شعبہ بے ہوشی، بتاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری زندگی یا بینائی بچانے والے حساس آپریشنز کی ہوتی ہے جن میں مکمل توجہ اور توانائی درکار ہوتی ہے، مگر ان کا کھانا “بہت معمولی” ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مہا ضبان کہتی ہیں کہ وہ آٹھ کلو وزن کھو چکی ہیں اور دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے، چکر اور سر درد کا شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “ہمارے جسم کو خوراک کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر میں مریضوں کو وہ دیکھ بھال نہیں دے سکتی جو ضروری ہے”۔
اعداد و شمار اس قابض اسرائیلی بھوک مہم کی ہولناکی بیان کرتے ہیں۔ گذشتہ 22 ماہ سے جاری محاصرے اور اجتماعی نسل کشی کے ساتھ غذائی قلت اور علاج نہ ملنے سے شہید ہونے والوں کی تعداد 222 ہو گئی ہے جن میں 101 معصوم بچے شامل ہیں۔
ان حالات میں، گزشتہ جمعہ قابض اسرائیلی کابینہ نے پورے غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی منظور کی، جو زخمیوں کی تعداد بڑھانے اور طبی عملے پر دباؤ کو ناقابلِ برداشت کرنے کی پیش گوئی کرتا ہے۔
اعداد و شمار نیتن یاھو کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہیں
بنجمن نیتن یاھو نے دعویٰ کیا تھا کہ 27 جولائی سے غزہ میں دو ملین ٹن امداد داخل کی گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ قابض اسرائیل امداد کو ٹپکوں میں داخل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو روزانہ کی ضرورت کے صرف 14 فیصد حصے کو پورا کرتی ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں محض 1210 ٹرک داخل ہوئے، حالانکہ اسی عرصے میں اصل ضرورت 8400 ٹرک تھی۔
جنگ سے پہلے کے اعداد و شمار سے موازنہ یہ واضح کرتا ہے کہ غزہ کو بھوک سے بچانے کے لیے کم از کم روزانہ 600 ٹرک تین ماہ سے زیادہ کے لیے بغیر کسی پابندی کے داخل ہونے چاہئیں۔
مارچ سے قابض اسرائیل 90 ہزار سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے سے روک چکا ہے، جبکہ اندر 6 ہزار ٹرک فوری طور پر لانے کی ضرورت ہے جو کم از کم تین ماہ کی بنیادی ضرورت پوری کریں گے۔
اقوام متحدہ اور انروا سمیت عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں پانچ لاکھ لوگ براہِ راست قحط کے خطرے میں ہیں اور باقی آبادی بھی شدید بھوک کا شکار ہے۔ خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے تین لاکھ بیس ہزار بچے بدترین غذائی قلت کے خطرے میں ہیں، جو انہیں عمر بھر کے لیے جسمانی و ذہنی تباہی میں دھکیل سکتا ہے۔