Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

نصف جرمن عوام کا فوری طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ

برلن – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  جرمنی میں رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ آدھے سے زیادہ جرمن عوام اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ فوراً ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے۔ یہ موقف ان کی حکومت کی سرکاری پالیسی کے برعکس ہے۔ اسی دوران جرمن چانسلر فریڈرش میرٹز نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل کو ایسا اسلحہ فراہم کرنے پر جزوی پابندی برقرار رکھی جائے گی جو غزہ میں استعمال ہو سکتا ہے۔

جرمن جریدہ “انٹرنیشنل پالیٹکس” کے لیے فورسا ریسرچ کمپنی کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 54 فیصد جرمن عوام نے اس سوال پر “ہاں” کہا کہ کیا جرمنی کو اب فلسطین کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ صرف 31 فیصد نے اس تجویز کی مخالفت کی۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مغربی جرمن شہروں میں یہ شرح 53 فیصد ہے جبکہ مشرقی جرمن شہروں میں فلسطین کی فوری تسلیم کے حامیوں کی تعداد 59 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

گزشتہ جمعرات کو “ڈوئچ لینڈ ٹرینڈ” کے ایک اور سروے میں 66 فیصد جرمن عوام نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو قابض اسرائیل پر غزہ کے خلاف اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے مزید دباؤ ڈالنا چاہیے۔ یہ تناسب اپریل سنہ 2024ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جب فورسا کے ایک سروے میں 57 فیصد عوام نے کہا تھا کہ حکومت کو غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر سخت تنقید کرنی چاہیے۔

رائے شماری میں یہ بھی سامنے آیا کہ 47 فیصد جرمن سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت فلسطینیوں کے لیے کچھ خاص نہیں کر رہی، جبکہ 39 فیصد اس خیال کو رد کرتے ہیں۔ محض 31 فیصد عوام ایسے ہیں جو تاریخی واقعات کی بنیاد پر قابض اسرائیل کے لیے خصوصی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، جبکہ 62 فیصد اس سوچ کو قبول نہیں کرتے۔

یہ عوامی جذبات اس وقت سامنے آئے ہیں جب جرمن چانسلر فریڈرش میرٹز نے آج اتوار کے روز اعلان کیا کہ جرمنی قابض اسرائیل کو وہ اسلحہ نہیں دے گا جو غزہ میں فوجی کارروائی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ اعلان اس وقت آیا جب قابض اسرائیل نے غزہ شہر پر قبضے کا خونی منصوبہ پیش کیا۔

میرٹز کے اس فیصلے پر ان کے اپنے سیاسی حلقے، خصوصاً ان کی جماعت “سی ڈی یو” کی نوجوان شاخ نے تنقید کی اور اسے جماعتی اور قومی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ تاہم میرٹز نے کہا کہ “ہماری ایک بنیادی اختلافی رائے صرف قابض اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی کے حوالے سے ہے، اور ایک حقیقی دوستی اس اختلاف کو برداشت کر سکتی ہے”۔

واضح رہے کہ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے برعکس، جرمنی نے ستمبر میں ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ برلن کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام صرف اسرائیلی-فلسطینی مذاکرات کے بعد ہی ممکن ہے۔

قابض اسرائیلی حکومت نے گزشتہ جمعہ کو پورے غزہ پر قبضے کے لیے ایک تدریجی منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کا آغاز غزہ شہر کے تقریباً ایک ملین شہریوں کو جبری طور پر جنوب کی طرف دھکیلنے سے ہوگا، پھر شہر کا مکمل محاصرہ کیا جائے گا اور آخر میں رہائشی علاقوں میں زمینی حملے کیے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 87 فیصد زمین پہلے ہی قابض اسرائیل کے کنٹرول یا اخلاء کے احکامات کے تحت آ چکی ہے۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی نئے فوجی توسیعی اقدام کے “نتائج تباہ کن” ہوں گے۔

اکتوبر سنہ 2023ء سے قابض اسرائیل، امریکہ کی کھلی پشت پناہی کے ساتھ، غزہ کے نہتے عوام پر نسل کشی کی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے جس میں اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، 1 لاکھ 53 ہزار سے زیادہ زخمی اور تقریباً پوری آبادی کو جبری طور پر بے گھر کر دیا گیا ہے۔ غزہ کی تباہی کی شدت ایسی ہے کہ دنیا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسی بربادی نہیں دیکھی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan