غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے ایک نئی نسل کشی کی سازش تیار کی ہے جس کا ہدف شمالی غزہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر غزہ کے وسطی اور جنوبی حصوں کی طرف دھکیلنے کا ارادہ ہے، حالانکہ وہ علاقے پہلے ہی کھنڈر بن چکے ہیں اور مکمل تباہی کا شکار ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ گذشتہ ہفتے اسرائیلی سکیورٹی کونسل نے قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی پیش کردہ تجویز کی منظوری دی۔ نیتن یاھو نے شہر غزہ کو حماس کا “آخری گڑھ” قرار دے کر اس پر وسیع پیمانے پر فوجی یلغار کا عندیہ دیا۔
اتوار کو اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ قابض فوج کے سربراہ ایال زامیر نے شہر غزہ پر قبضے کے لئے فوجی منصوبہ بندی مکمل کر لی ہے اور جلد اس پر عملدرآمد کا آغاز ہو سکتا ہے۔
مرکز نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ شمالی غزہ کو زبردستی خالی کرا کے وہاں غیر قانونی صہیونی بستیاں بسانے کی سازش ہے۔ یہ اقدام قابض اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور نسلی تطہیر کی ایک نئی قسط ہو گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا تو ناگزیر طور پر اجتماعی قتل عام، اندھا دھند گرفتاریوں، اذیت رسانی، بھوک، اور لاکھوں شہریوں کی جبری بے دخلی کا خطرہ ہے، جن میں بچے، معذور اور کمزور طبقات بھی شامل ہیں۔
مرکز نے بتایا کہ اس وقت تقریباً دس لاکھ فلسطینی شہر غزہ کے مغربی حصے میں جمع ہیں، جن میں وہ بے گھر لوگ بھی ہیں جو شمالی علاقوں بیت لاہیا، بیت حانون اور جبالیا سے نکلنے پر مجبور ہوئے، جو تقریباً مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
ادارے کے مطابق شہر غزہ کے بیشتر محلوں پر قابض فوج نے عسکری کنٹرول قائم کر لیا ہے یا انہیں مکمل طور پر “ممنوعہ علاقے” قرار دے دیا گیا ہے۔
مرکز نے کہا کہ گذشتہ 23 ماہ سے جاری قتل عام، تباہی، بھوک، محاصرے اور بار بار کی جبری ہجرت نے فلسطینی عوام کو جسمانی اور ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا ہے۔ وہ روزانہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں، کھانے پینے کا سامان نہیں، بجلی نہیں، صاف پانی نہیں اور نہ ہی علاج معالجے کی سہولت ہے۔ دو برس سے زیادہ عرصے کی اس مسلسل درندگی اور نسل کشی نے فلسطینی عوام کی قوت برداشت کو ختم کر دیا ہے۔
مرکز نے زور دے کر کہا کہ یہ “غزہ پر قبضے کا منصوبہ” نہیں کیونکہ سنہ1967ء سے غزہ قابض اسرائیل کے زیر تسلط ہے، جسے حال ہی میں عالمی عدالت انصاف نے بھی واضح کیا۔ درحقیقت یہ منصوبہ شمالی غزہ اور شہر غزہ کو زبردستی خالی کرانے اور نسلی تطہیر کی ایک نئی کوشش ہے، بالکل اسی طرح جیسے قابض اسرائیل نے گذشتہ برس “جرنیلوں کے منصوبے” کے تحت ناکام کوشش کی تھی۔
مرکز برائے انسانی حقوق فلسطین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً مداخلت کرے، ہتھیاروں کی فراہمی پر فوری پابندی لگائے اور قابض اسرائیل کو اس نئے منصوبہ بند حملے سے باز رکھے۔
بیان میں کہا گیا کہ دو سال سے زیادہ عرصے کے جرائم کے بعد اب نسل کشی کا انکار ممکن نہیں۔ اس میں کسی قسم کا شک یا ہچکچاہٹ کی گنجائش نہیں۔ اگر عالمی برادری خاموش رہی تو یہ کھلا تواطؤ ہو گا جس کے لئے کوئی جواز نہیں۔