غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) نو ذوالحجہ کو جب دنیا بھر سے آئے لگ بھگ بیس لاکھ حاجی میدانِ عرفات میں وقوف عرفہ ادا کر رہے تھے، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ربِ رحیم سے دعائیں مانگ رہے تھے، تو غزہ کے لوگ بھی دستِ دعا بلند کیے کھڑے تھے۔ مگر وہ جبلِ رحمت پر تھے، نہ سفید احرام میں ملبوس۔ وہ کھنڈر بن چکے گھروں کے ملبے پر تھے، خون آلود فرش پر، بارود کی بو میں لپٹے ماحول میں۔ وہ بھی آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اپنے پروردگارکے حضور رجوع کے لیے کھڑے تھے مگر ان کے لبوں پر مغفرت کی دعا نہیں، بلکہ زندگی کی فریاد تھی۔ ان کی آوازیں پکار رہی تھیں، “اے اللہ کوئی ہمارا مددگار نہیں رہا، بس تو ہی ہے”۔
غزہ میں اس دن کوئی خوشی تھی، نہ کوئی چہل پہل۔ صرف دھوئیں کے بادل تھے،جنگی طیاروں کی بمباری تھی، زمین پر بچھے لاشوں کے سائے تھے اور خیمے تھے جو گر چکے گھروں کی باقیات پر عارضی طور پر نصب کیے گئے تھے۔ ان خیموں سے ہلکی آوازوں میں دعائیں نکلتیں، جو جنگی طیاروں کی گھن گرج کو چیر کر آسمان تک پہنچتی ہیں۔ یہ دعائیں بے بسوں کی ہیں، زخمی دلوں کی، ایسی دعائیں جو صرف اللہ ہی سن سکتا ہے۔
یومِ عرفہ جو اسلامی کیلنڈر کا مقدس ترین دن ہے غزہ میں ایک وجودی جنگ کی مانند محسوس ہوا۔ یہاں کی دعائیں محض مغفرت کی درخواست نہیں بلکہ زندگی کی بھیک تھیں۔ یہاں آنسو عاجزی کے نہیں بلکہ فریاد کے تھے۔ یہ آہیں کسی گناہ کی ندامت نہیں بلکہ ظلم کے طوفان میں بہتے انسانوں کی چیخیں تھیں۔
“ہر بمباری پر ہم صرف ‘یا اللہ’ کہتے ہیں اور آج تو یہ لفظ ہم نے ہزار بار دہرایا ہے”۔ یہ کہنا تھا اُم نضال کا جن کی عمر 42 سال، النصیرات کیمپ پر ہونے والی وحشیانہ بمباری میں اپنے گھر کے ملبے تلے سے زندہ نکلی تھیں۔ وہ ایک ماں ہے، ایک بیٹی، ایک بہن اور لاکھوں دیگر فلسطینیوں کی نمائندہ جو اس دن بھی روزہ رکھے ہوئے تھے، پانی کے بغیر ہسپتالوں میں جگہ کے بغیر اور مساجد کے بغیر جنہیں قابض اسرائیل نے زمیں بوس کر دیا ہے۔ ان کے دل خوف سے بھرے ہوئے ہیں مگر پھر بھی اللہ کی طرف متوجہ ہیں۔
دعا، جو اب عبادت نہیں، بلکہ مزاحمت ہے
جب ساری دنیا کی نگاہیں مکہ مکرمہ پر مرکوز تھیں، غزہ میں اذان کی آوازوں میں فریاد کا شور شامل ہو گیا۔ یہاں دعا کوئی مذہبی رسم نہیں، بلکہ بقا کی جنگ کا ایک ہتھیار بن چکی ہے۔ ایک خاموش چیخ، ایک التجا، کہ خدایا، ہم پر رحم فرما۔ اے رب تُو دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے اور قادر ہے۔ پس ہم تجھ سے رحم مانگتے ہیں۔
شجاعیہ، خان یونس اور جبالیہ میں ہر طرف سے آواز آتی ہے: “اللهم إنك ترى، وتعلم، وتقدر، فارحمنا” – اے اللہ تُو جانتا ہے، تُو دیکھتا ہے، تُو سب کچھ کر سکتا ہے، تو ہم پر رحم فرما”۔
تکبیریں جو جنگی طیاروں سے ٹکرا گئیں
عرفہ کی صبح ایک دردناک منظر کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ایک طرف غزہ کی مساجد میں تکبیرات کی گونج تھی تو دوسری جانب آسمان سے آگ برسا رہے تھے قابض اسرائیلی طیارے۔ لگتا تھا جیسے غزہ کے باسیوں کی روحیں دھوئیں اور خون کے اس اندھیرے سے نکل کر آسمان کی طرف اٹھ گئی ہوں۔ ان کی تکبیریں جیسے درندگی کے اس نظام پر ایک زوردار چوٹ تھیں۔
ایک نوجوان جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ملبہ ہٹا رہا تھا، گویا ہوا “ہم نے تکبیر کہی اور ہمارے اردگرد کی دیواریں ہلنے لگیں۔ ہم ڈرے ضرور مگر ہم نے تکبیر جاری رکھی”۔
دنیا کی خاموشی اور غزہ کی فریاد
پوری دنیا کی خاموشی اور بے حسی کے سائے میں غزہ کا انسانی المیہ دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے جاری قتلِ عام، معصوم جانوں کا ضیاع اور انسانی المیے نے غزہ کو ایسا زخمی کر دیا ہے کہ سانس لینا بھی ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔
مگر اسی یومِ عرفہ نے امید کی ایک کرن بھی جگا دی۔ تباہ حال ہسپتالوں، بند ہوتے تنوروں اور خاکستر محلوں میں رہنے والے لوگوں نے دعا کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کی زبانوں پر یہی فریاد تھی: “یا اللہ ہمیں بھی عید کی خوشبو نصیب ہو، بغیر جنازوں کے، بغیر بمباری کے، بغیر خوف کے”۔
سوشل میڈیا پر فلسطین کے حامیوں نے ایک ہی صدا بلند کی: “من عرفات إلى غزة، اللهم كن معنا” – “عرفات سے غزہ تک، اے اللہ، ہمارا حامی و نا
صر ہو جا۔” یہ کوئی نعرہ نہیں تھا، یہ دنیا کو جھنجھوڑنے کی ایک آخری کوشش تھی۔ یہ التجا تھی کہ عرفہ کا دن صرف عبادت نہ ہو، بلکہ مظلوموں کے لیے بیداری کا لمحہ بن جائے۔
غزہ اس دن بھی جل رہا تھا۔ ہاں، واقعی آگ میں تھا۔ مگر ان کے دلوں میں ایمان کی شمع ابھی بجھی نہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کی رمق ابھی زندہ ہے۔ جب حاجی میدانِ عرفات سے واپسی کی تیاری کر رہے تھے تو غزہ کے لوگ ایک ہی دعا کر رہے تھے: “یا اللہ ہمیں عید کا مزہ چکھا، بغیر کسی کھوئے ہوئے پیارے کے، بغیر کسی بمباری کے اور بغیر کسی خوف کے”۔