لندن (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا ہےکہ قابض اسرائیلی حکام ایک سال سے زائد عرصے سے اپنے اتحادیوں اور دنیا کے بیشتر ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے کی ان کی کوششیں اپنے دفاع کے لیے ایک جائز عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کی جنگ ،وحشیانہ اور مسلسل فوجی جارحیت ہے۔
کالمارڈ نے اتوار کے روز امریکی میگزین نیوز ویک میں اپنے مضمون میں مزید کہا کہ یہ دعویٰ کہ غزہ پر نسل کشی کی جنگ کا مقصد صرف حماس کو ختم کرنا ہے، نہ کہ فلسطینیوں کو ایک قومی اور نسلی گروہ کے طور پر جسمانی طور پر تباہ کرنا، حتیٰ کہ جزوی طور پر بھی، حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بلا تفریق تمام فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ایمنسٹی نے حال ہی میں غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف قابض اسرائیلی ریاست کی نسل کشی کے حتمی شواہد شائع کیے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اہلکار نے وضاحت کی کہ ایمنسٹی کی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیل نے نسل کشی کی ہے۔ یہ تحقیقات بڑی محنت، تحقیق اور سخت قانونی تجزیے پر مبنی ہیں۔ ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کنونشن کے تحت ممنوعہ اعمال کا ارتکاب کیا، جس میں قتل اور منظم انداز میں سوچا سمجھا جسمانی اور نفسیاتی تشدد بھی شامل ہے۔ جان بوجھ کر ان کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے حالات پیدا کیے گئے ہیں جس کا نشانہ ہر فلسطینی ہے۔
کالمارڈ نے کہا کہ قابض فوج نے غزہ کو تیزی سے تباہ کیا اور اس پیمانے پر اس صدی میں کسی دوسری جنگ میں نہیں دیکھا گیا۔ پورے شہروں کو مسمار کر دیا اور اہم انفراسٹرکچر، زرعی اراضی اور ثقافتی اور مذہبی مقامات کو تباہ کر دیا۔ دسیوں ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا گیا۔غزہ کی آبادی کو قحط اورلا تعداد بیماریوں سے دوچار کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “جو چیز بین الاقوامی قانون کے تحت ان کارروائیوں کو نسل کشی کے زمرے میں شامل کرتی ہیں وہ موجود ہیں۔ تنظیم کی رپورٹ میں پیش کیے گئے شواہد واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی مہم کا دانستہ مقصد غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو تباہ کرنا ہے۔ اعلیٰ سطح کے اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں کو ان کی انسانی ضروریات سے محروم کرنے کےلیے کام کیا۔ انہوں نے نسل کشی کی کارروائیوں کا مطالبہ کیا جو اسرائیل کے حقیقی عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اہلکار نے بتایا کہ قابض فوج نے بار بار من مانی اور الجھا دینے والے بڑے پیمانے پر “انخلاء” کے احکامات جاری کیے، جس کی وجہ سے شہریوں کو چھوٹے اور کم رہائش کے قابل علاقوں میں زبردستی نقل مکانی کرنا پڑی، زندگی کو سہارا دینے والے اہم انفراسٹرکچر پر حملوں کے ساتھ جان بوجھ کر رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں۔ بین الاقوامی برادری اور انسانی امدادی تنظیموں کی کالوں کو نظر انداز کیا گیا۔ انسانی امداد کی آمد کو روکا۔ یہاں تک کہ نسل کشی سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت کے احکامات کو بھی نظرانداز کیا گیا۔
کالمارڈ نےکہا کہ مسلح تصادم میں نسل کشی کے ارادے کا تعین کرنا پیچیدہ اور مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ ضروری ہے کہ مسلح تصادم کے تناظر میں نسل کشی کو اس کے لیے تسلیم کیا جائے، اس جنگ کو اس کا جواز فراہم کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ تنظیم کی رپورٹ میں موجود شواہد واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں کی تباہی قابض حکام کے لیے اپنے دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے ایک مقصد تھا اور رہے گا۔ ان شواہد سے صرف ایک ہی معقول نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ نسل کشی کا ارادہ غزہ کی پٹی پر جنگ کا ایک لازمی حصہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ “اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارے نتائج کتنے ہی ناخوشگوار ہیں۔ اس طرح کے ظلم کے سامنے غیر فعال ہونا ناقابل دفاع ہے کیونکہ ہم نے جو ثبوت شائع کیے ہیں اس کا مطلب ہے کہ چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے اسرائیل کے اتحادیوں کو یہ بہانہ کرنا چھوڑ دینا چاہیے کہ بین الاقوامی جرائم نہیں ہوئے ہیں‘‘۔
اہلکار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انسانیت کا دفاع کیا جائے، اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں ، نسل پرستی اور غیر قانونی قبضے کے قدیم طریقوں کو ختم کرنے اور اس استثنیٰ کو روکنے کا مطالبہ کیا جائے۔
کالمارڈ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ غزہ کے غیر قانونی اور غیر انسانی اسرائیلی محاصرے کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ جو لوگ اسرائیل کو ہتھیار بھیجتے رہتے ہیں،انہیں ہتھیار بند کرنے چاہئیں۔