نیویارک ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) سلامتی کونسل کے ارکان نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں انسانیت سوز المیے کو روکنے کے لیے فوری اور غیر مشروط فائر بندی ناگزیر ہے تاکہ امدادی سامان کی ترسیل بلا کسی رکاوٹ ممکن ہو اور محصور فلسطینی عوام کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کے سوا تمام ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ غزہ کی صورتحال ایک سنگین موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 41 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سلامتی کونسل کے ارکان نے خبردار کیا کہ بھوک اور قحط کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بیان میں قابض اسرائیل سے فوری طور پر مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے سے باز رہے اور ایسے تمام اقدامات بند کرے جو انسانی بحران کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ ارکان نے زور دیا کہ عالمی قوانین کے مطابق شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
سلامتی کونسل نے متنبہ کیا کہ اگر قابض اسرائیل نے محاصرہ اور جارحانہ حملے جاری رکھے تو صورتحال مزید تباہ کن ہو جائے گی۔ ارکان نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام فریقین پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ جارحیت ختم ہو، امداد غزہ تک پہنچے اور بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (اوچا) نے بھی گزشتہ اتوار خبردار کیا کہ غزہ میں قحط روز بروز شدت اختیار کر رہا ہے اور یہ مسئلہ محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں رہا بلکہ لاکھوں انسان روزانہ موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اوچا کے بیان میں کہا گیا: “غزہ میں قحط کوئی خبر کی سرخی نہیں بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے جس نے شہریوں کی زندگی کو براہِ راست خطرے میں ڈال دیا ہے، لہٰذا فوری عالمی اقدام ناگزیر ہے۔”
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ 12 لاکھ فلسطینی بچے شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں کیونکہ خوراک اور غذائی اجزاء کی سخت قلت ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جمعہ اقوام متحدہ اور عالمی ماہرین نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط پھیل چکا ہے۔ قابض اسرائیل کئی ماہ سے منظم انداز میں محاصرہ اور بھوک مسلط کر کے اجتماعی سزا دے رہا ہے، لیکن تاحال اس انسانیت سوز المیے کو کم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔