Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

جہازوں سے پھینکی جانے والی امداد، ذلت آمیز تماشہ اور کمزوروں کے لیے باعث موت

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ پر قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ قحط اور بھوک کے طوفان کے بیچ ابھی تین ہفتے بھی نہیں گزرے کہ دنیا کے سامنے ہوائی راستے سے امداد پھینکنے کا تماشہ رچایا جانے لگا۔ بہ ظاہر یہ قحط زدہ عوام کے لیے ریلیف ہے مگر درحقیقت یہ اذیت ناک تذلیل ہے اور موت بانٹنے کا الگ طریقہ ہے۔ انہی لمحوں میں رپورٹر کا دل نہ چاہا کہ جائے اور یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے، مگر بالآخر تھکی ہاری ہمت کو جمع کر کے شمالی النصیرات کی اس ویران زمین تک جا پہنچا جو کبھی سرسبز تھی، مگر قابض اسرائیلی افواج کے حالیہ حملے نے اسے بے جان صحرا میں بدل ڈالا۔

فضا میں ایک جہاز گذرا، پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا مگر کسی نے کچھ نہ پھینکا۔ پانچویں جہاز نے پانچ بڑے غبارے گرائے، ہر ایک میں لگ بھگ ایک ٹن غذائی اشیاء تھیں۔ یکدم تین ہزار سے زائد بھوکے اور پیاسے لوگ ان کی طرف لپکے، جن میں بارہ سالہ بچے بھی تھے اور نحیف ضعیف العمر بزرگ بھی۔ یہ منظر ایک ایسے جیتے جاگتے انسانوں کے ہجوم کا تھا جنہیں قابض دشمن نے دو سال سے مسلسل قتل عام اور اجتماعی سزاؤں کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔

دم توڑتی بچپن کی معصومیت

بارہ سالہ عادل ھجوم میں گر پڑا، کسی نے نہ دیکھا۔ سینکڑوں پیروں تلے وہ کچلا جانے لگا۔ اس کے محلے کے ایک شخص نے چیخ و پکار کرتے ہوئے بڑی مشکل سے اسے کھینچ کر نکالا تو وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ کچھ لوگ بچے کھچے پانی سے اس کا منہ دھوتے رہے۔ دیر بعد وہ ہوش میں آیا مگر زور زور سے رونے لگا، آنکھیں کھولنے کی ہمت تک نہ تھی۔ آخر گاؤں کے چند افراد اسے گدھا گاڑی پر ڈال کر اس کے گھر لے گئے۔

عادل نے امدادی سامان گرائے جانے سے قبل مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے سے بات کی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ کیوں اپنی جان داؤ پر لگاتا ہے۔ اس کے والد اسرائیلی بمباری میں شدید زخمی ہو کر بستر سے لگے ہیں۔ عادل اپنی چار چھوٹی بہنوں کا واحد سہارا ہے۔ اس نے کہاکہ “اگر امداد اندر آتی اور اداروں کے ذریعے تقسیم ہوتی تو ہمیں یوں دوڑنے اور کچلے جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہم جنگ سے پہلے بہتر زندگی گزار رہے تھے مگر اب تو بھوک نے نڈھال کر دیا ہے”۔

عادل نے دنیا کے ہر ذی ضمیر انسان سے اپیل کی کہ وہ قابض اسرائیل کی اس جنگ کو روکے، بارڈرز کھولے تاکہ لوگ کھانے پینے کا انتظام کر سکیں اور اس کا باپ بھی علاج کے لیے جا سکے۔

ضعیفوں کے لیے کوئی جگہ نہیں

عادل کی کم عمری کے برعکس 65 سالہ ابو عماد وہاں کھڑے تھے۔ وہ تین بیٹوں کے والد ہیں جو قابض اسرائیل کی بمباری میں شہید ہو گئے۔ وہ اپنی بیوی اور یتیم پوتوں کے لیے امداد لینے آئے مگر قریب جانے کی ہمت نہ کر سکے۔ “میں ان جوانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ غربت نے سب کو اندھا کر دیا ہے۔ اگر میں گیا تو گر جاؤں گا۔ تین بار آ چکا ہوں مگر خالی ہاتھ واپس گیا ہوں”۔

ابو عماد نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ قابض اسرائیل کو مجبور کیا جائے کہ وہ انروا کو امداد لانے اور عزت کے ساتھ تقسیم کرنے کی اجازت دے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوائی راستے سے پھینکی جانے والی امداد کسی مسئلے کا حل نہیں، بیوائیں، بوڑھے اور مریض اس طریقے سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔

شہید کی گواہی

شہید عدی القرعان نے اپنی شہادت سے دو دن قبل ایک ویڈیو میں کہا تھاکہ “یہ امداد نہیں یہ ذلت ہے”۔ وہ غزہ کے وسطی علاقے دیر البلح کے شہداء الاقصیٰ ہسپتال میں نرس تھے۔ 33 سالہ عدی کے دو بچے ہیں۔ ایک امدادی ڈبہ سیدھا اس پر گرنے سے وہ شہید ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ طریقہ کسی بھی قوم کی بھوک مٹانے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تضحیک کے لیے ہے”۔

وہ اکیلے نہیں بلکہ کئی فلسطینی شہید ہو چکے اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ بہت سی خیمہ بستیاں ان غباروں کے گرنے سے تباہ ہوئیں۔ یہ سب کچھ عالمی اداروں نے بھی تسلیم کیا ہے۔

نہ کارآمد، نہ بھوک ختم کرنے والی

انروا کے سربراہ فلیپ لازارینی نے کہا کہ ہوائی راستے سے امداد بھیجنا ٹرکوں کی نسبت سو گنا زیادہ مہنگا ہے اور سامان بھی نصف ہی پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک دکھاوا ہے تاکہ اصل انسانی المیے سے توجہ ہٹائی جا سکے۔

انروا کی ترجمان جولیئٹ توما نے بھی واضح کیا کہ امداد لانے کا واحد مؤثر راستہ بری گذرگاہیں ہیں، جو تیز تر اور کم خرچ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فضائی راستے سے گرائی جانے والی امداد غزہ کی بڑھتی ہوئی بھوک اور قحط کو کسی طور ختم نہیں کر سکتی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan