غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے قابض اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے اس مطالبے کو، کہ غزہ پٹی میں پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی بند کر دی جائے، غزہ میں نسل کشی اور اجتماعی تباہی کی پالیسی کا ایک واضح اعتراف قرار دیا ہے۔
جمعرات کے روز سموٹریچ نے ایک پریس کانفرنس میں غزہ کے عوام کے خلاف ایک نئے اشتعال انگیز بیان میں پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس نے کہا کہ “جو لوگ گولیوں سے نہیں مریں گے، وہ بھوک سے مر جائیں گے۔” مزید کہا کہ “اگر غزہ کے رہائشیوں کو رضاکارانہ ہجرت کی اجازت دی جائے تو ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔”
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ بیانات قابض فوج کو غزہ پٹی میں اپنے جرائم جاری رکھنے کی ایک کھلی دعوت ہیں، تاکہ ہمارے لوگوں کی نسل کشی کی جائے اور انہیں جبری طور پر بے دخل کیا جا سکے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ایک سرکاری اعتراف ہے کہ بھوک اور محاصرہ نہتے شہریوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جو جنیوا کنونشنز اور روم اسٹیٹیوٹ کے تحت جنگی جرم ہے۔
حماس نے سموٹریچ کے بیانات کو ہمارے عوام کے خلاف جبری ہجرت اور نسلی صفائی کے منصوبے کا کھلا اعتراف قرار دیا اور اسے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے قابض اسرائیل کو سزا دینے کے لیے ایک ٹھوس ثبوت کہا، کیونکہ فاشسٹ قابض رہنماؤں کے پاس نسل کشی کا ارتکاب کرنے کا ارادہ موجود ہے۔
حماس نے کہا کہ “سموٹریچ کا یہ بیان کوئی الگ تھلگ یا انتہا پسندانہ رائے نہیں بلکہ ایک کھلی حکومتی پالیسی ہے جس پر تقریباً 23 ماہ سے عمل کیا جا رہا ہے، جس میں خوراک اور ادویات کی روک تھام، امدادی مراکز پر بمباری، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور لوگوں کو بے گھر کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔”
بیان کے آخر میں حماس نے اس بات پر زور دیا کہ “یہ بیانات دنیا کے سامنے قابض اسرائیل کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض ایک فوجی جنگ نہیں بلکہ اجتماعی نسل کشی اور جبری ہجرت کا منصوبہ ہے، جو عالمی برادری کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور قابض رہنماؤں کے احتساب کے لیے فوری اقدامات کرنے پر مجبور کرتا ہے۔”