Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کے لاپتہ افراد درد کا ناسور اور انسانیت کی پکار

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جب بھی رفح کے مغربی حصے میں واقع ان مقامات کے قریب سے، جنہیں پہلے “امریکی امدادی مراکز” کہا جاتا تھا، کسی شہید کی لاش برآمد ہونے کی خبر آتی ہے تو ام احمد بے قرار ہو کر وہاں پہنچتی ہیں۔ وہ ہر بار یہ امید باندھتی ہیں کہ شاید یہ لاش ان کے بچے احمد کی نہ ہو، تاکہ یہ امید قائم رہے کہ اس کا بیٹا ابھی زندہ ہے یا قابض فوج نے اسے گرفتار کر رکھا ہے۔

ام احمد الحلبی اپنے کم سن بیٹے کی واپسی کی منتظر ہیں، جو خوف اور بھوک کے بوجھ تلے ایک صبح گھر سے نکلا تھا۔ وہ مغربی رفح کی سمت گیا، جہاں آج کل کے “موت کے جال” بچھے ہوئے ہیں، اس امید پر کہ شاید کچھ کھانے کا سامان مل جائے۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ ایک نوالے کی تلاش میں اٹھائے گئے چند قدم ہی اس کی زندگی کا آخری سراغ بن جائیں گے۔

دکھی ماں بتاتی ہیں: “اس دن کے بعد سے میں نے احمد کو نہیں دیکھا۔ ہم نے ہر جگہ تلاش کیا، انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کیے، مگر کسی کے پاس کوئی خبر نہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا وہ زخمی ہوا تھا، کچھ نے بتایا کہ صہیونی ٹینکوں نے پورا علاقہ روند ڈالا۔”

احمد کے لاپتہ ہونے کے بعد سے اس کے گھر میں وقت جیسے رک گیا ہے۔ ہر دن ایک نہ ختم ہونے والا انتظار ہے اور ہر رات اندھیروں کا طویل سفر۔ پھر بھی احمد کی ماں امید کا آخری چراغ جلائے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بس یہی دعا کرتی ہیں: “اے میرے رب، میرا بیٹا واپس کر دے، یا کم از کم یہ بتا دے کہ وہ کہاں ہے۔”

ہزاروں لاپتہ افراد

گذشتہ ہفتے جنگ بندی کے نفاذ کے بعد غزہ میں محکمہ سول ڈیفنس نے اعلان کیا کہ صہیونی جارحیت کے آغاز سے اب تک تقریباً 9500 فلسطینی افراد لاپتہ ہیں۔

محکمے کے ترجمان محمود بصل نے بیان میں بتایا کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک 9500 لاپتہ افراد کی اطلاع ملی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی صلیب احمر کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل سے ان افراد کی قسمت معلوم کرنے کے لیے رابطہ کرے۔

اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں لاپتہ افراد کی تعداد 8 ہزار سے 11 ہزار کے درمیان ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اور ان میں سے بیشتر کی زندگی یا موت کا کوئی سراغ نہیں۔

یہ لاپتہ افراد ان میں شامل ہیں جو اپنے گھروں کے ملبے تلے دب گئے، جبراً بے دخل کیے گئے، انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہوئے یا صہیونی فوج کے ہاتھوں قید میں لے جائے گئے۔ ان کے خاندان امید اور ناامیدی کے درمیان جھولتے رہ گئے ہیں۔

لاپتہ افراد… جنگ کا تلخ نتیجہ

غزہ میں لاپتہ اور جبراً غائب کیے گئے افراد کے فلسطینی مرکز کے محقق غازی المجدلاوی کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی جنگ نے ایک نئی انسانی المیہ جنم دیا ہے — لاپتہ افراد کا بحران۔ ان کے مطابق، جاری جارحیت کے دوران یہ تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

المجدلاوی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں 8 سے 9 ہزار لاپتہ افراد ہونے کا اندازہ ہے، جن میں سے اکثر یا تو ملبے تلے دبے ہیں یا قابض اسرائیلی افواج کے قبضے والے علاقوں میں ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ، صلیب احمر اور ہلال احمر فوری طور پر مداخلت کریں، بھاری مشینری، فرانزک ماہرین اور ڈی این اے شناختی آلات فراہم کریں تاکہ اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی لاشوں کو باعزت طریقے سے دفنا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ایک ایسے ادارے کے قیام کی متقاضی ہے جو ان تمام کیسز کو منظم طور پر دستاویزی شکل دے اور متاثرہ خاندانوں کی آواز عالمی سطح پر پہنچائے۔

المجدلاوی نے بتایا کہ “فلسطینی مرکز برائے لاپتہ افراد” ایک قومی پہل ہے جس کا مقصد جبراً غائب کیے گئے اور لاپتہ فلسطینیوں کے مقدمات کو ریکارڈ پر لانا اور ان کے حقوق و شناخت کا تحفظ کرنا ہے۔

ان کے مطابق مرکز قانونی، نفسیاتی اور سماجی مدد فراہم کرتا ہے، اور ان جرائم کی مکمل دستاویزات تیار کر کے انہیں بین الاقوامی سطح پر پیش کرتا ہے تاکہ مجرموں کا احتساب ممکن بنایا جا سکے۔

مرکز ایک جامع ڈیجیٹل ڈیٹا بیس تیار کر رہا ہے جس میں ہر لاپتہ شخص کی تفصیلات، مقام، حالات اور گواہوں کے بیانات شامل ہوں گے تاکہ متاثرہ خاندانوں کے انسانی پہلو کو اجاگر کیا جا سکے۔

المجدلاوی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس وقت ترجیح ان افراد کو دی جا رہی ہے جو حالیہ غزہ کی جنگ کے دوران لاپتہ ہوئے، مگر مرکز کی سرگرمیاں فلسطینیوں کے تمام کیسز تک پھیلائی جا سکتی ہیں، خواہ وہ اندرونِ فلسطین ہوں یا بیرونِ ملک۔

انہوں نے بتایا کہ مرکز محققین اور وکلا کی ایک ٹیم پر مشتمل ہے جو قابض اسرائیل کے جبری گمشدگی کے جرائم کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔

مرکز بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے ذریعے ان جرائم کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس ضمن میں صلیب احمر اور دیگر تنظیموں کے ساتھ شراکت داری بھی قائم کی جا رہی ہے تاکہ معلومات تک رسائی آسان ہو۔

المجدلاوی کے مطابق، سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ قابض اسرائیل اپنی جیلوں میں جبراً غائب کیے گئے افراد کی تفصیلات ظاہر نہیں کرتا، اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ تعاون سے انکار کرتا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری اور ثالث ممالک پر زور دیا کہ وہ لاپتہ افراد کا معاملہ مذاکرات کی میز پر لائیں۔

مرکز اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ وہ جبری گمشدگی کے تمام واقعات عالمی سطح پر پیش کرے گا تاکہ مفقودین کے انجام کا پتا چلایا جا سکے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

آج غزہ کے ملبے میں دبی ہوئی زندگی کی بازگشت، ٹوٹے ہوئے گھروں کی خاموش دیواروں اور ویران گلیوں میں گونجتی ہے۔ ہزاروں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے لیے یہ زخم ایسا ہے جو کبھی نہیں بھر پاتا۔ نہ ان کے نام کسی فہرست میں ہیں، نہ قبریں جن پر جا کر آنسو بہائے جا سکیں۔ بس کچھ تصویریں، یادیں اور دعائیں ہیں جو وقت کے ساتھ دھندلا رہی ہیں، مگر ماؤں کے دل اب بھی پکار رہے ہیں — “احمد… کہاں ہو میرے لال؟”

یہ المیہ محض اعداد و شمار کا قصہ نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر کے لیے ایک چیخ ہے۔ ظلم اس وقت ختم نہیں ہوتا جب کسی کو قتل کیا جائے، بلکہ جب اسے فراموش کر دیا جائے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan