قابض اسرائیل(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مقبوضہ نقب کے کتسیعوت جیل پر دھاوا بول دیا، جہاں وہ فخر سے فلسطینی اسیران کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کا اعلان کرتے نظر آیا۔ بن گویر نے قیدیوں کو سزائے موت دینے کی کھلی دھمکی بھی دی جس پر اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اس کے اس اقدام کو فسطائی ذہنیت کا عکاس قرار دیا۔
جمعرات کے روز بن گویر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ جیل کی ایک کوٹھڑی کے سامنے کھڑا ہے، کھڑکی کی ایک چھوٹی سی جھری کھولتا ہے اور اندر تین فلسطینی قیدیوں کو جھکے ہوئے، زمین پر بیٹھے دکھاتا ہے۔
ویڈیو میں بن گویر فخر سے کہتا ہے “تمام کمانڈرز زمین پر بیٹھے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیے۔ انہیں صرف ضرورت کی حد تک چیزیں دی جا رہی ہیں، اب ان کے پاس نہ جام ہے نہ چاکلیٹ، نہ ٹی وی نہ ریڈیو، ہم نے سب کچھ چھین لیا ہے”۔
اس نے مزید کہاکہ “اب صرف ایک چیز باقی ہے، اور وہ ہے پھانسی کا قانون”۔
واضح رہے کہ دو روز قبل بن گویر نے قابض حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسا قانون منظور کرے جو فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کی اجازت دے جن پر تل ابیب حملوں کا الزام عائد کرتا ہے۔ گذشتہ ستمبر کے آخر میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایسے بل کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی تاکہ اسے کنیسٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جا سکے۔
قیدیوں کے خلاف منظم نسل کشی
کلب برائے اسیران فلسطین نے جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا کہ بن گویر کی یہ دھمکیاں قابض اسرائیل کے اندر جاری قیدیوں کے خلاف منظم نسل کشی کے منصوبے کا تسلسل ہیں۔ وہ مسلسل فلسطینی اسیران کو قتل کرنے، ان پر تشدد بڑھانے اور ان کی تذلیل کو قانونی شکل دینے کے لیے اشتعال انگیز بیانات دے رہا ہے۔
کلب برائے اسیران نے خبردار کیا کہ قابض کنیسٹ میں جاری خطرناک قانون سازی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ قابض ریاست قیدیوں کے قتل اور پھانسی کے جرائم کو قانونی تحفظ دینا چاہتی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک ایسی خصوصی عدالت قائم کی جائے جو کسی عدالتی ضمانت یا قانونی شفافیت سے عاری ہو اور خاص طور پر غزہ کے اسیران کے خلاف فیصلے سنائے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان قانونی ترمیمات کے ذریعے قابض اسرائیل کھلے عام انسانیت کے خلاف جرائم کو جائز ٹھہرانے کی راہ پر گامزن ہے۔
کلب برائے اسیران کے مطابق ان فلسطینی قیدیوں کی گواہیاں جنہیں اپنی سزا پوری کرنے یا کسی تبادلہ معاہدے کے تحت رہا کیا گیا، ناقابلِ تصور حد تک درندگی، تشدد اور اذیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ مظالم گرفتاری کے دوران سے شروع ہو کر قید کے پورے عرصے میں جاری رہے، خصوصاً سنہ2023ء میں شروع ہونے والی نسل کشی کے بعد ان میں شدت آگئی۔ کلب نے ان جرائم کی بین الاقوامی سطح پر فوری اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جیلوں میں اب بھی 9100 سے زائد فلسطینی قیدی موجود ہیں، جب کہ سیکڑوں افراد فوجی کیمپوں میں حراست کے نام پر اذیت سہہ رہے ہیں۔
کلب برائے اسیران نے واضح کیا کہ یہ مظالم کسی وقتی اقدام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اور گہری جڑوں والی پالیسی ہیں جو قابض اسرائیل کے نظام کا حصہ ہیں۔ اس کے مطابق قیدیوں کے قتل، جسمانی و نفسیاتی تشدد، بھوک پر مجبور کرنے، علاج سے محرومی، تذلیل اور حتیٰ کہ جنسی زیادتی تک کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
حماس کا ردِعمل: فسطائیت اور سفاکیت کی انتہا
حماس نے بن گویر کی ویڈیو پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں پر تشدد، ان کی تذلیل اور پھانسی کی دھمکیاں قابض اسرائیل کے فسطائی اور سادی ازم پر مبنی رویے کا کھلا مظہر ہیں۔
حماس کے بیان میں کہا گیا کہ دنیا بھر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح قابض ریاست کے مجرم لیڈر فلسطینیوں کے قتل و اذیت کو فخر کا تمغہ سمجھتے ہیں۔ زندہ اور شہید دونوں ہی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کے نشانات ان کی لاشوں پر واضح ہیں، یہاں تک کہ بعض کی شناخت تک ممکن نہ رہی۔
حماس نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ قابض اسرائیل کے ان جرائم کو بے نقاب کرے اور اس کے لیڈروں کو بین الاقوامی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ تحریک نے اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری کارروائی کر کے فلسطینی قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بند کرائیں، ان کی رہائی یقینی بنائیں اور قابض اسرائیل کے جنگی مجرموں کو سزا دلائیں۔