Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

برازیل میں اہل غزہ کے حق میں احتجاج، قابض اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ

ساو پاؤلو – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) برازیل کے سب سے بڑے شہر ساو پاؤلو میں اتوار کے روز سینکڑوں سیاسی، مزدور تنظیموں کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے ایک پرجوش اور درد انگیز احتجاجی مظاہرہ کیا، جس کا مقصد نہتے فلسطینی عوام، خصوصاً اہلِ غزہ سے یکجہتی کا اظہار اور ان پر مسلط کی گئی اجتماعی نسل کشی اور قحط جیسے انسانیت سوز مظالم کی شدید مذمت کرنا تھا۔

یہ مظاہرہ شہر کے قلب میں واقع مشہور “آوینیڈا پاؤلیستا” سڑک پر منعقد ہوا، جہاں مظاہرین نے “سافرا بینک” کے سامنے اجتماع کیا۔ یہ بینک قابض اسرائیل کی مالی معاونت کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ مظاہرے کا عنوان تھا: “غزہ میں بھوک کے خلاف اقدام” اور “لولا، اب اسرائیل سے تعلقات ختم کرو”۔

اس احتجاج کی کال بائیں بازو کی جماعتوں، لیبر یونینز، عوامی یونینز کے مرکز، انقلابی کمیونسٹ پارٹی (PCO) اور فلسطینی کاز سے وابستہ مختلف تنظیموں مثلاً برازیل میں موجود بی ڈی ایس تحریک نے دی تھی۔ اس مظاہرے میں فلسطینی کمیونٹی کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ صہیونیت مخالف یہودی افراد نے بھی شرکت کی۔

مظاہرین نے ایسے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ پر مسلط قحط کی مذمت اور برازیل و قابض اسرائیل کے درمیان معاشی و سفارتی تعلقات فوری طور پر ختم کرنے کے مطالبات درج تھے۔ انہوں نے زور دار نعرے لگائے، جن میں “فلسطین دریا سے سمندر تک آزاد ہے” اور “بچوں کے قاتلوں کو ایندھن نہیں” جیسے نعرے شامل تھے۔

مظاہرے میں شریک عوامی یونینز مرکز کے رہنما فابیو بوسکو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: “غزہ میں اسرائیل کی درندگی دراصل عالمی ساز باز کے ساتھ انجام دی جانے والی نسل کشی ہے۔ ہم یہاں یہ پیغام دینے آئے ہیں کہ برازیل مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو، نہ کہ صہیونی قتل گاہ کو تیل فراہم کرے۔”

مظاہرہ منعقد کرنے والی تنظیموں نے اپنی اپیل میں اقوام متحدہ کے “انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن” (IPC) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پوری آبادی یعنی 22 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 9 لاکھ سے زائد افراد “مرحلہ 5” یعنی مکمل قحط کی کیفیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جو موجودہ صدی میں کسی بھی خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔

ساو پاؤلو کے بینک ملازمین کی یونین سے وابستہ رہنما ویلیم مینڈیس نے اپنے بیان میں کہا: “آج دنیا ایک شرمناک خاموشی کی گواہ ہے، جب کہ غزہ میں انسانیت کی سب سے بھیانک پامالی ہو رہی ہے۔ ہم جمہوریت اور سماجی انصاف کی بات کیسے کر سکتے ہیں جب معصوم بچوں کو بھوک کا ہتھیار بنا کر مارا جا رہا ہو؟”

ایک اور مظاہرہ کنندہ، کامیلا مالاغینی نے کہا: “غزہ آہستہ آہستہ ذبح ہو رہا ہے، بھوک، پیاس اور بمباری نے اہلِ غزہ کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ یہ کوئی تنازعہ نہیں بلکہ منصوبہ بند نسل کشی ہے، اور ہماری حکومت کو اس پر واضح مؤقف اپنانا چاہیے۔”

احتجاج کے دوران مظاہرین نے “برتن بجانے” کی ایک علامتی سرگرمی انجام دی، جو برازیل میں بطور احتجاج ایک روایتی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ ملک کی قدرتی دولت، بالخصوص تیل، کو قابض فوج کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے مئی 2024 کے دوران برازیل نے قابض اسرائیل کو 7 لاکھ بیرل تیل برآمد کیا۔

سرکاری اسکولوں کی ایک استانی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن لورینا فرنانڈیز نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے دور کا حقیقی ہولوکاسٹ ہے۔ صدر لولا کو صرف الفاظ پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، اگر وہ واقعی اسے نسل کشی سمجھتے ہیں تو قابض اسرائیل سے مکمل تعلقات منقطع کریں۔”

کئی مظاہرین نے اس امر کی بھی مذمت کی کہ قابض اسرائیلی فوج نے “حنظلہ کشتی” کو روک کر، جو کہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کی ایک علامتی کوشش تھی، اس پر سوار رضاکاروں کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک محاصرہ ختم نہیں ہوتا اور راستے نہیں کھلتے، کشتیوں کی روانگی اور احتجاجی مارچ جاری رہیں گے۔

مظاہرے میں شریک تنظیموں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ سیاسی اور عوامی سطح پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گی، تاکہ قابض اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑے اور فلسطینی قوم کی آزادی، عزت و وقار اور اپنی مکمل سرزمین پر خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کو عملی حمایت ملے۔

یہ مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب برازیل کے عوام میں قابض اسرائیل کے وحشیانہ حملوں پر شدید غصہ پایا جاتا ہے، اور صدر لولا دا سلوا کی حکومت کی جانب سے قابض ریاست سے تعلقات برقرار رکھنے پر عوامی حلقوں میں شدید مایوسی اور ناراضی جنم لے چکی ہے، باوجود اس کے کہ صدر لولا نے حالیہ بیانات میں غزہ میں جاری کارروائی کو “خواتین اور بچوں کے خلاف ایک مسلح ریاست کی طرف سے انجام دی جانے والی نسل کشی” قرار دیا تھا۔

صدر لولا دا سلوا نے 21 جولائی کو برازیلیا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا: “غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی ہے جسے ایک مسلح ریاست نہتے عورتوں اور بچوں کے خلاف انجام دے رہی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا: “بچوں کو بھوکا رکھ کر اور معصوموں کو قتل کر کے کوئی بھی مقصد جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔” انہوں نے قابض اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔

صدر لولا نے زور دے کر کہا کہ “جب تک فلسطینی عوام کو 1967 کی سرحدوں پر اپنی خودمختار ریاست کے قیام کا مکمل حق تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔” انہوں نے قابض اسرائیل کی طرف سے مسلسل خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی روش کو ترک کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک، امریکہ کی پشت پناہی سے قابض اسرائیل نے غزہ میں جو انسانیت سوز نسل کشی شروع کی ہے، اس میں ہزاروں فلسطینی بچوں اور عورتوں سمیت 2 لاکھ 4 ہزار سے زائد افراد شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ 11 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں بچے بھوک اور بیماریوں کی نذر ہو چکے ہیں، اور پورا غزہ ایک ویران خطے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan