تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین افائونڈیشن پاکستان
فلسطین کی پٹی غزہ میں گزشتہ نو ماہ سے امریکی سرپرستی میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف عمل ہے۔ امریکی حکومت مسلسل غاصب اسرائیل کو نہ صرف سیاسی و سفارتی حمایت دے رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ اسلحہ کی مدد بھی جاری ہے۔ امریکی حمایت کی وجہ سے خود امریکی ریاستوں میں عوام امریکی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ طلباء برادری سمیت عوام اور اساتذہ برادری بھی امریکی حکومت کی ان انسان دشمن پالسییوں سے ناراض ہیں اور سخت غم و غصہ کا اظہار احتجاجی مظاہروں کی صورت میں کر رہے ہیں۔ نہ صرف امریکی حکومت کے خلاف بلکہ یورپی ممالک میں بھی عوام یورپی حکومتوں کے انسان دشمن رویہ پر احتجاج کر رہے ہیں۔
انہی حالات میں اب غزہ میں جنگ بندی کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن جو ایک طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہیں تو دوسری طرف جنگ بندی کی تجویز اور معاہدہ بھی پیش کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حماس کے ساتھ جاری مزاکرات میں مصر اور قطر حکومت کے عہدیداروںنے جنگ بندی کے معاہدے پر بات چیت کی ہے۔ حما س نے بھی کافی لچک کا مظاہرہ کیا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں پر غاصب صیہونی فوج کی درندگی تاحال جاری ہے۔
دوسری طرف شمال فلسطین میں کیونکہ حزب اللہ لبنان نےغاصب صیہونی فوج کو بڑے پیمانہ پر جانی مالی اور فوجی نقصان پہنچایا ہے جس کے بعد امریکی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جلد از جلد غزہ میں جنگ بندی کی جائے تا کہ لبنان کے ساتھ ایک بڑی لڑائی میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو ختم کیا جائے ۔ حالانکہ امریکی حکومت اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل غزہ میں حماس کو ختم نہیں کر سکے ہیں۔البتہ یہاں کچھ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ امریکی حکومت سمجھتی ہے کہ حماس کی قیادت کو قائل کیا جا سکتا ہے کیونکہ حماس قطر اور مصر جیسےممالک کی حکومتوں پر بھروسہ کر تی آئی ہے جو کہ دونوں ہی حکومتیں امریکہ کی اتحاد ی ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکومت نے قطر حکومت کو کہا تھا کہ اگر حماس جنگ بندی کا معاہدہ تسلیم نہیں کرتی ہے تو پھر حماس کی قیادت کو قطر سے نکال دیا جائے یا پھر ان کے رہنمائوں کو گرفتار کے کے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔اس طرح کی دبائو کی صورتحال میں حما س کے پاس آپشن بہت کم رہ جاتے ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان میں ایک طاقتور سیاسی و اسلامی مزاحمتی گروہ بھی ہے۔ اب تک کی جنگ میں سب سے زیادہ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والی حزب اللہ ہے۔
بہر حال اب سوال یہ ہے کہ کیا لبنان پر جنگ مسلط کی جائے گی ؟ امریکی حکومت کی منصوبہ بندی کیا ہے ؟ اس بات کا جواب تلاش کرنے کے لئے خود غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے ایک تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو چاہئیے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف جنگ میں نہ جائے۔غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے ایک سرکردی تحقیقاتی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز نے کہا کہ حزب اللہ کی مزاحمتی تحریک اپنے بڑے فوجی ہتھیاروں اور جدید سائبر سسٹمز کی وجہ سے حکومت کو بھاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ I-N-S-S نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ جنگ مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے اور اسرائیل فضائی دفاعی ہتھیاروں کی کمی کی وجہ سے اپنے شہریوں اور اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ جب تک غزہ کی پٹی پر اس کی نسل کشی کی جنگ جاری ہے حزب اللہ کے ساتھ مکمل طور پر منسلک نہ ہو۔ اس میں اسرائیل پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے متبادل کے طور پر غزہ میں دیرپا جنگ بندی پر عمل کرے۔ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملے کے آپریشنل منصوبوں کے اعلان کے بعد کشیدگی عروج پر ہے۔ دونوں فریق گزشتہ اکتوبر سے اس وقت سے فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں جب اسرائیل نے غزہ پر نسل کشی کی جنگ شروع کی تھی۔
اس رپورٹ کے اس پہلے حصہ کے بعد ایک بات تو بہت واضح ہو چکی ہے جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے پاس فضائی دفاع کے ہتھیاروں کی کمی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پچاس سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ حزب اللہ نے فضائی حملہ بھی کیا ہے او ر کامیابی سے غاصب صیہونی فوجیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
دوسری طرف امریکی حکومت بھی چاہتی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد ہی لبنان کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا جائے ۔اب چاہے جنگ غزہ میں جنگ بندی سے پہلے ہو یا بعد میں ایک بات تو واضح اور ثابت ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے اگر بڑی جنگ کا آغاز کر دیا تو پھر حزب اللہ بھی خاموش نہیں رہے گی کیونکہ سید حسن نصر اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس مرتبہ جنگ میں کسی قاعدے قانون کے ساتھ جنگ نہیں ہو گی بلکہ ایک بڑی جوابی کاروائی ہو گی جو اسرائیل کے لئے سرپرائز ہو گا۔
امریکی حکومت کو بھی سیاسی مبصرین اور امریکی سیاستدانوںنے لبنان پر جنگ مسلط کرنے سے ور رہنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ امریکی سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر غاصب اسرائیل نے جنگ مسلط کی تو نقصان اسرائیل سے زیادہ امریکی حکومت کا ہو گا۔امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ غرب ایشیائی ممالک میں موجود ہے وہ کسی نہ کسی عنوان سے اس جنگ میں نشانہ بننا شروع ہوں گے اور اس جنگ کی سب سے مہنگی قیمت امریکہ کو چکانا پڑے گی اور انجام میں غاصب اسرائیل کو بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب امریکہ اور غاصب اسرائیل مل کر اگر لبنا ن پر حملہ کرتے ہیں تب بھی شکست ہے اور اگر حملہ نہ کریں تو بھی شکست خوردہ کہلائیں گے۔ یعنی حزب اللہ اس وقت win win پوزیشن میں موجود ہے۔ حزب اللہ کا واضح پیغام ہے کہ غزہ پر جارحیت کے خاتمہ تک غاصب صیہونی فوجیوں کے خلاف ہماری جوابی کاروائیاں جاری رہیں گی۔