استنبول – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی بین الاقوامی عدالت کے سربراہ اور فلسطین کے لیے سابق اقوام متحدہ کے مقرر رچرڈ فولک نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فوری اور مؤثر اقدام کرے تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطینی عوام کی حفاظت کر سکے۔ انہوںے کہا کہ عالمی برادری سلامتی کونسل میں قابض اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو کو ختم کرائے۔
غزہ کی عدالت جو ایک آزاد بین الاقوامی اقدام ہے نے اس حوالے سے پیر کو استنبول میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں مغربی لبرل جمہوریتوں کی غزہ میں قابض اسرائیل کی اجتماعی نسل کشی میں براہ راست شرکت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
رچرڈ فولک نے کہا کہ عدالت کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو مکمل اختیار دیا جائے اور سکیورٹی کونسل میں ویٹو کو نظرانداز کیا جائے، جبکہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی سست روی اور قانونی پیچیدگیوں پر قابو پایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے جو بنیادی اقدام تجویز کیا ہے، اس میں اقوام متحدہ کے موجودہ سیاسی آلات کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ 1950ء میں کوریا کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے امن حل کے تصور پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے، جو 1956ء میں سوئز بحران کے دوران کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا۔
یہ تصور سرد جنگ کے دوران بھی استعمال ہوا تاکہ اقوام متحدہ کی جوابدہی اور کارکردگی برقرار رہے، خواہ سویت یونین ویٹو کا استعمال کرے۔
فولک نے امید ظاہر کی کہ یہ معاملہ اگلے ستمبر میں نیو یارک میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اجلاسوں میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر فوری اور بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو غزہ میں 22 ماہ سے جاری قابض اسرائیل کی اجتماعی نسل کشی کے شکار فلسطینی عوام کو بچانے کا موقع ضائع ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام عالمی ضمیر کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں جو حکومتوں میں تبدیلی لائیں اور اس کے ساتھ ہتھیاروں پر پابندی اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے لیے اظہار یکجہتی کو فروغ دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اکتوبر کے آخر میں اسطنبول میں اجلاس ہوگا، جہاں ضمیر کی ججز کی ٹیم اپنا حتمی فیصلہ اور سخت احکام جاری کرے گی۔
اقوام متحدہ کی حفاظت کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کے جواب میں فولک نے کہا کہ حفاظت کی ذمہ داری کو تعمیری انداز میں دوبارہ مرتب کیا جا سکتا ہے، اور یہ نہ صرف موجودہ بحران کو کم کرنے میں مدد دے گی بلکہ فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق، بشمول خود ارادیت، دلانے کی ترغیب بھی دے گی۔
فولک نے کہا کہ قابض اسرائیل کی مکمل قبضہ اور فلسطینی عوام کو ان کے وطن میں حفاظت سے محروم کرنا ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ آخری بحران نہیں بلکہ اجتماعی نسل کشی کا ایک خطرناک مرحلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل نہ صرف غزہ بلکہ خطے کے دیگر حصوں میں بھی درندگی پر اتر آیا ہے، اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ دوسری جنگ بھڑکا سکتا ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے میں ہونے والے مظالم سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
فولک نے کہا کہ صہیونیت کا حتمی مقصد یہ ہے کہ یہودی برتری قائم رہے اور فلسطینی عوام کی مادی اور سیاسی موجودگی کم سے کم ہو اور ان کی مزاحمت ختم کی جائے۔
انہوں نے زور دیا کہ قابض اسرائیل صحافیوں کو خاموش کرنے اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسرائیل ایک بدنام، غیر قانونی ریاست ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی شہریوں کو کھیلوں یا ثقافتی سرگرمیوں میں شامل نہ کیا جائے اور تعلیمی، سائنسی یا ٹیکنالوجی منصوبوں میں ان کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے، نیز کمپنیوں پر دباؤ ڈالا جائے۔
فولک نے کہا کہ امریکہ میں عوامی رائے میں خاص طور پر یہودی اقلیت کے درمیان ایک بنیادی تبدیلی آئی ہے، جو کانگریس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کم از کم متوازن پالیسی پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ ہے کہ وہ مخصوص مفادات جو اسرائیل کو ہتھیار اور دیگر تکنیکی آلات فراہم کرتی ہیں اور کانگریس پر بہت اثر رکھتی ہیں، کی موجودگی میں کارروائی مشکل ہے۔
فولک نے بتایا کہ امریکہ میں دو متضاد قوتیں ہیں: ایک طرف کانگریس اور وائٹ ہاؤس ہے جو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کو بطور دور حاضر ہیرو تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف سول سوسائٹی ہے جو انہیں ہٹلر سے بھی خطرناک جنگی مجرم سمجھتی ہے۔
گذشتہ نومبر میں، لندن میں ماہرین، دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، میڈیا نمائندوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے “غزہ کی عدالت” کا آغاز کیا تاکہ قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جا سکیں۔
اس اقدام کی قیادت سابق اقوام متحدہ کے مقرر رچرڈ فولک کر رہے ہیں، جبکہ دیگر سربراہان میں سابق مقررین مائیکل لنک، ہلال الفر، اور ماہرین نورا عریقات، سوزان اکرام، احمد کور اوغلو، جان رینولڈز، دیانا بوتو، جمیل ایدن اور بینی گرین شامل ہیں۔
امریکی حمایت سے قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں اجتماعی نسل کشی کا آغاز کیا، جس میں قتل، بھوک، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہے، اور بین الاقوامی اپیلوں اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کی پرواہ نہیں کی۔
اس اسرائیلی نسل کشی میں 62,004 فلسطینی شہید اور 156,230 زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، جبکہ 9,000 سے زائد لاپتہ، سیکڑوں ہزار بے گھر اور قحط کی وجہ سے 263 افراد، جن میں 112 بچے شامل ہیں، ہلاک ہوئے۔