غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جب قید کے فولادی دروازے کھلے اور برسوں بعد فلسطینی اسیران روشنی میں نکلے تو منظر تاریخ کے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
پچاس اور ساٹھ برس کے وہ چہرے جن پر وقت کے نشانات کندہ تھے، اپنے بچوں اور پوتوں کے سامنے کھڑے تھے جو انہیں صرف تصویروں میں جانتے تھے۔ گھروں کی دہلیز پر گلے ملنے والے یہ لمحات صدیوں کی جدائی کے آنسوؤں سے تر تھے۔
“طوفان الاحرار” معاہدے کے تحت جب فلسطینی اسیران اپنے اہلِ خانہ کے آغوش میں پہنچے تو ماؤں کے ہاتھ لرز رہے تھے، آنکھیں یقین اور بے یقینی کے درمیان جھول رہی تھیں۔ جب کسی ماں نے بیٹے کی آواز پہچانی یا آنکھوں کی لرزش دیکھی تو ضبط ٹوٹ گیا، آنسوؤں کا سمندر بہہ نکلا۔
یہ محض قیدیوں کی رہائی نہیں تھی، یہ تاریخ کی قید سے آزادی کی واپسی تھی۔ وہ نسل جو قابض اسرائیل کے سیاہ زندانوں میں جوان ہوئی، آج مزاحمت کے عزم کی صورت کھڑی تھی۔
یہ کہانیاں ایک سچائی دہراتی ہیں ، آزادی دی نہیں جاتی، چھینی جاتی ہے۔
قابض اسرائیل کبھی رضاکارانہ طور پر کسی فلسطینی مجاہد کو رہا نہیں کرتا۔ اس کے فولادی دروازے صرف تب کھلتے ہیں جب میدانِ مزاحمت میں اس کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔
آزادی ہمیشہ خون کے نذرانے سے لکھی جاتی ہے اور غزہ نے اس سچائی پر اپنے جسم سے مہر ثبت کی ہے۔ اس کے ملبوں سے اٹھتی چیخیں اور اذانیں آج بھی گواہی دے رہی ہیں کہ مزاحمت کبھی مر نہیں سکتی۔
“طوفان الاقصیٰ” معاہدے میں فلسطینی مزاحمت نے 3985 اسیران کو رہائی دلوائی، جن میں سینکڑوں ایسے تھے جنہیں عمرقید یا طویل سزاؤں پر قید رکھا گیا تھا۔
فلسطینی اسیران کا مسئلہ ہمیشہ جدوجہدِ آزادی کا بنیادی ستون رہا ہے۔ قابض اسرائیل انہیں سودے بازی کا ہتھیار سمجھتا ہے، مگر فلسطینی قوم انہیں عزت، استقامت اور آزادی کی علامت مانتی ہے۔
سنہ1948ء سے آج تک فلسطینی مزاحمت کی ہر لہر نے اسیران کی رہائی کو اپنا مرکزی ہدف بنایا۔
ہر معاہدہ طاقت کے توازن کا نیا پیمانہ ثابت ہوا ۔ ایک طرف اپنی زمین سے جڑی ایک غیرت مند عوام اور دوسری طرف ایک مغرور قابض جو خود کو “جمہوریت” کے لبادے میں چھپاتا ہے مگر دراصل ایک نسل پرست قاتل ریاست ہے۔
قابض اسرائیل نے کبھی انسانیت یا قانون کے تحت اسیر نہیں چھوڑے، بلکہ ہمیشہ مزاحمت کی گولیوں، خندقوں اور قربانیوں کے دباؤ میں آ کر جھکنا پڑا۔
یہی وہ تاریخی تسلسل ہے جس نے فلسطین کی مزاحمت کو دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کا تسلسل بنا دیا۔
“طوفان الاقصیٰ” معاہدہ اس لیے بھی سنگِ میل ہے کہ یہ اس وقت عمل میں آیا جب قابض اسرائیل نے غزہ پر 735 دن طویل قتل عام، قحط اور بمباری مسلط کر رکھی ہے جو سات اکتوبر سنہ2023ء سے جاری ہے۔
مگر یہ پہلا موقع نہیں جب مزاحمت نے دشمن کو جھکنے پر مجبور کیا۔گذشتہ کئی دہائیوں میں فلسطینیوں اور عرب مجاہدین نے متعدد بار قابض اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے پر آمادہ کیا ۔ ہر بار مزاحمت نے اپنی ثابت قدمی سے دشمن کی نام نہاد طاقت کے غرور کو چکنا چور کیا۔
صہیونی رعونت جسے فلسطینی مزاحمت کے سامنے باربا جھکنا پڑا
فروری 1980ء میں قابض اسرائیل نے فلسطینی مجاہد مہدی بسیسو (ابو علی) اور ولیم نصار کو رہا کیا، بدلے میں اردنی جاسوس امینہ داوود المفتی کو واپس لیا۔
نومبر 1983ء میں تنظیم آزادی فلسطین نے چھ اسرائیلی فوجیوں کے بدلے ساڑھے چار ہزار فلسطینی اسیران کو رہائی دلوائی ۔ یہ اُس وقت کی سب سے بڑی تاریخی کامیابی تھی۔
مئی 1985ء میں معروف “جبریل معاہدہ” کے تحت 1155 فلسطینیوں کی آزادی عمل میں آئی، جو آج بھی فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکتوبر 1997ء میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہائی نے دنیا کو دکھایا کہ ایمان اور مزاحمت کی طاقت فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔
اکتوبر 2011ء میں “وفاء الاحرار” معاہدے کے تحت القسام بریگیڈز نے ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے 1027 فلسطینی اسیران کو رہا کرایا — ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ قابض طاقت کو جھکانے والی اصل قوت مزاحمت ہے، نہ کہ ہتھیاروں کی تعداد۔
یہ تمام معاہدے صرف فلسطینی اسیران کی رہائی نہیں، بلکہ دشمن کے غرور کی شکست کا باب ہیں۔ ہر رہائی کے ساتھ ایک سچ اور روشن ہوا
کہ قابض کی جیلیں جتنی بھی گہری ہوں، ایمان کی روشنی ان کی فصیلوں کو چیر دیتی ہے۔
فلسطینی مزاحمت کی یہ داستان دنیا کے ہر مظلوم کو بتاتی ہے کہ جب قوم اپنی آزادی کے لیے متحد ہو جائے، تو سب سے مضبوط زنجیریں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
غزہ کے بچے، ان کی مائیں، اس کے مجاہد سب ایک عہد کی تمثیل بن چکے ہیں۔ وہ دنیا کو یاد دلا رہے ہیں کہ
مزاحمت ہی آزادی کی کنجی ہے۔