دوحہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامیہ تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہنما طاہر النونو نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی جماعت کو غزہ پر جاری جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کی جانے والی کسی امریکی منصوبے کی نقل موصول ہوئی ہے۔
النونو نے پیر کی شب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حماس اس وقت جاری امریکی منصوبے سے متعلق کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں رہی۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل کے قید فوجیوں کی رہائی صرف اسی صورت ممکن ہے جب جنگ ختم ہو اور قابض فوج غزہ سے مکمل انخلا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزاحمتی قوتوں کا ہتھیار فلسطینی ریاست کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔
النونو نے کہا کہ حماس کئی برسوں پر محیط ایک جنگ بندی کے لیے تیار ہے اور اس نے مصر کی اس تجویز کو قبول کیا ہے جس کے تحت غزہ کی ایک آزاد انتظامیہ قائم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ کے خاتمے اور قابض اسرائیل کے انخلا کی ضمانت دینے والے کسی بھی معاہدے کے تحت قید فوجیوں کی رہائی کے لیے سنجیدہ ہیں۔
النونو نے مزید کہا کہ حماس، فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر غزہ اور غرب اردن کے لیے قومی وفاقی حکومت بنانے پر آمادہ ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ تحریک حماس جنگ کے تسلسل کی خواہش مند نہیں اور وہ ہر اس تجویز کا بغور مطالعہ کرے گی جو فلسطینی عوام کے مفاد کے خلاف نہ ہو۔
انہوں نے دوٹوک کہا کہ فلسطینی قوم باشعور ہے اور کسی بیرونی وصایت کو قبول نہیں کرے گی۔
گذشتہ روز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں جاری نسل کشی کے خاتمے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جو 21 نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں فوری جنگ بندی اور موجودہ محاذی لائنوں کو منجمد کرنے کی شق بھی شامل ہے۔
دوسری جانب تحریک حماس نے واضح کیا ہے کہ اسے جنگ بندی کے لیے کسی ثالث کے ذریعے کوئی نیا مسودہ موصول نہیں ہوا۔
حماس نے اپنے بیان میں ایک بار پھر کہا کہ وہ مثبت اور ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ ہر اس تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے جو اسے ثالثوں کے ذریعے موصول ہو اور جو فلسطینی عوام کے قومی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے۔