Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

تمام فلسطینی دھڑوں نے حماس کے جنگی بندی منصوبے کی حمایت کردی

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) رام اللہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اور مختلف مزاحمتی جماعتوں نے آج ہفتے کے روز اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے اس جواب کو سراہا ہے جو اس نے امریکی منصوبے کے جواب میں پیش کیا۔ تمام فلسطینی دھڑوں نے اسے ایک ’’قومی اور ذمہ دارانہ موقف‘‘ قرار دیا جو ’’فلسطینی مزاحمتی قوتوں سے وسیع اور گہری مشاورت‘‘ کے بعد سامنے آیا۔

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی اور تفصیلات طے کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حماس کے مثبت موقف کے بعد اب وقت ہے کہ تمام فلسطینی قیادت قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے‘‘۔ محمود عباس نے مصر، قطر، ترکیہ، پاکستان، سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا کے کردار کو بھی سراہا جنہوں نے اس معاہدے تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا۔

دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی دھڑوں نے ایک مشترکہ بیان میں تمام فریقوں سے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کی تکمیل کے لیے درکار اقدامات کو فوری طور پر آگے بڑھائیں۔ انہوں نے عرب و اسلامی ممالک کے یکجہتی بھرے موقف، مصری و قطری ثالثی اور ترکیہ کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کوششوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ اور قابض اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد دی۔

قومی ملاقات کی دعوت

مزاحمتی جماعتوں نے زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کرے اور فوراً ایک جامع قومی اجلاس طلب کرے تاکہ ایک آزاد فلسطینی انتظامی ادارے کو غزہ کی ذمہ داری سونپنے کے عملی طریقہ کار پر غور کیا جا سکے اور ان حساس لمحات میں تمام قومی امور پر بحث ہو سکے۔

ادھر اسلامی جہاد نے کہا کہ حماس کا امریکی منصوبے پر جواب دراصل ’’فلسطینی مزاحمتی قوتوں‘‘ کا متفقہ موقف ہے۔ جہاد اسلامی جو غزہ کی دوسری بڑی عسکری تنظیم ہے ۔ اس کے عسکری ونگ کا نام ’’سرایا القدس‘‘ نے کہا کہ ’’حماس کا جواب تمام مزاحمتی قوتوں کے قومی اتفاق کی نمائندگی کرتا ہے‘‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’جہاد اسلامی نے بھی مکمل ذمہ داری کے ساتھ ان مشاورتوں میں حصہ لیا جن کے نتیجے میں یہ فیصلہ سامنے آیا‘‘۔

قومی اور ذمہ دارانہ جواب

اسی طرح محاذِ عوامی برائے آزادیِ فلسطین نے کہا کہ ’’حماس کا جواب ایک قومی اور ذمہ دارانہ موقف ہے جو جارحیت کے خاتمے کی راہ ہموار کرتا ہے‘‘۔ محاذ نے زور دیا کہ ’’اہم بات یہ ہے کہ قابض اسرائیل جارحیت روکنے اور معاہدے پر عمل درآمد کا پابند رہے تاکہ مکمل جنگ بندی، فوجی انخلا اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی راہ ہموار ہو‘‘۔
محاذ نے امریکی انتظامیہ کو کسی بھی خلاف ورزی یا معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی صورت میں مکمل ذمہ داری کا حامل قرار دیا اور جنگی مجرم بنجمن نیتن یاھو کو اس تباہ کن جنگ کے تسلسل کا اصل مجرم ٹھہرایا۔

درایں اثنا، تحریک المجاہدین نے کہا کہ ’’حماس کا موقف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی اجتماعی سوچ اور ذمہ دارانہ قومی طرزِ عمل کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ موقف جنگی قتل عام اور قحط کی مہم کو روکنے کی سچی خواہش پر مبنی ہے، اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مثبت فلسطینی موقف کو سراہتے ہوئے قابض دشمن کو اس کے وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور کرے جو ہمیشہ تاخیری حربے اور بدعہدی کا عادی رہا ہے‘‘۔

ثالثوں کی کاوشوں کا خیر مقدم

فتح تحریک کے اصلاحی دھڑے نے بھی حماس کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا کہ اس نے امریکی منصوبے سے اتفاق کیا ہے۔ دھڑے نے مصر، قطر، ترکیہ اور دیگر برادر و دوست ممالک کی کوششوں کو سراہا جن کی بدولت یہ اعلان سامنے آیا جو نہ صرف نسل کشی کی جنگ کے خاتمے کا پیش خیمہ بنے گا بلکہ فلسطینیوں کے جبری انخلا کو بھی روکے گا اور قومی آزادی کے عمل کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔

جمہوری محاذ برائے آزادیِ فلسطین نے کہا کہ ’’حماس کا موقف ذمہ دارانہ ہے‘‘ اور وہ اس دعوت سے مطابقت رکھتا ہے جو اس نے منصوبہ اعلان سے قبل دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’غزہ کے انتظام کے لیے ایک قومی ادارہ تشکیل دیا جائے جو تنظیمِ آزادیِ فلسطین کے ماتحت ہو تاکہ ریاستِ فلسطین کی وحدت، عوامی یکجہتی، قومی حقوق اور مستقبل کی ضمانت کو یقینی بنایا جا سکے‘‘۔

گذشتہ شب جمعہ کے روز تحریک حماس نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس نے امریکی منصوبے کے جواب میں اپنا تفصیلی رد پیش کر دیا ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ تمام قابض اسرائیلی اسیران، چاہے زندہ ہوں یا شہید، کی رہائی پر آمادہ ہے۔

حماس نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ غزہ کے انتظام کو فلسطینی ماہرین اور غیر جانبدار شخصیات پر مشتمل ایک آزاد ادارے کے سپرد کیا جائے جو قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے تحت اپنی ذمہ داریاں انجام دے۔ تاہم حماس نے واضح کیا کہ ’’غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پر فیصلے صرف ایک جامع فلسطینی فورم میں ہی کیے جا سکتے ہیں‘‘۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan