غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اتوار کی شام مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ ان کا پہلا پڑاؤ قابض اسرائیل ہوگا، جس کے بعد وہ مصر جائیں گے جہاں وہ غزہ معاہدے پر دستخط کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ پیر کے روز قابض اسرائیلی کنیسٹ سے خطاب کریں گے اور بعد ازاں مصر جا کر اس معاہدے پر دستخط کریں گے جو بدھ کی شام طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور قابض اسرائیل کے درمیان چار روزہ بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ مذاکرات کی میزبانی قطر، مصر اور ترکیہ نے کی جبکہ امریکہ نے اس کی سرپرستی کی۔
گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے تاکہ اس معاہدے کو عملی شکل دی جا سکے جس کے نتیجے میں غزہ کی تباہ کن جنگ کے خاتمے پر اتفاق ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل پیر یا منگل کو شروع ہو جائے گا اور مصر میں ایک باضابطہ دستخطی تقریب منعقد ہوگی۔
ٹرمپ نے قطر، مصر اور ترکیہ کی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مدد سے ایک “قابلِ تحسین نتیجہ” حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ “ہم نے مشرق وسطیٰ میں جو امن قائم کرنے میں مدد دی ہے وہ دیرپا ثابت ہوگا” اور ان کے بقول “علاقے کی تمام ریاستیں امن پر متفق ہیں”۔
آج صبح قابض اسرائیلی وزیراعظم دفتر نے تصدیق کی کہ حکومت نے باقاعدہ طور پر ٹرمپ کے پیش کردہ معاہدے کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد غزہ کی جنگ کا خاتمہ اور قیدیوں کی واپسی ہے۔
دوپہر 12 بجے قابض فوج کی جانب سے فائر بندی کے اعلان کے بعد وادی غزہ کے علاقے میں جمع ہزاروں فلسطینی شمالی علاقوں کی جانب واپس جانے لگے۔
آج صبح قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں پر محدود نوعیت کی بمباری کی، تاہم معاہدے کے اعلان کے بعد وسیع پیمانے پر حملے رُک گئے۔
گذشتہ جمعرات علی الصبح صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور قابض اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ قابض اسرائیل نے سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ کی پٹی پر تباہ کن نسل کش جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 67 ہزار 194 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار 890 زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی محاصرے اور جنگی درندگی کے باعث بھوک اور قحط سے 460 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 154 بچے شامل ہیں۔