عمان(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے پیر کے روز “طوفان الاقصیٰ ڈیل” کے تحت 13 اردنی اسیران کو صہیونی جیلوں سے آزادی دلا کر انسانیت اور مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ رہائی اس تاریخی ڈیل کا حصہ ہے جس میں مجموعی طور پر 1968 فلسطینی و عرب اسیران کو رہائی ملی، جو غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا بنیادی جزو ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے دفتر برائے امور اسیران نے 13 اردنی قیدیوں کی تصاویر جاری کیں اور بتایا کہ انہوں نے رہائی کے بعد “غزہ اور فلسطینی مزاحمت” کا شکریہ ادا کیا۔ دفتر کے مطابق ان اسیران نے اپنے پیغام میں کہا کہ “غزہ ہمیشہ امت کی عزت اور آزادی کا دروازہ رہا ہے، اور مزاحمت ہی نے ہمیں وقار کے ساتھ قید و بند کی زنجیروں سے آزاد کیا۔”
دفتر نے بتایا کہ رہائی پانے والے اردنی اسیران میں شامل ہیں: مرعی ابو سعیدہ (11 عمر قید)، منیر مرعی (5 عمر قید)، ہشام الکعبی (4 عمر قید)، عمار حویطات (عمر قید)، ہانی الخمیسہ (عمر قید)، زید یونس (عمر قید)، سامر ابو دیّاک (عمر قید)، فرج عدوان (28 سال قید)، محمد الرمحي (23 سال)، ولید منصور (21 سال)، علی نزال (20 سال)، ثائر اللوزی (19 سال) اور نبیل حرب (18 سال)۔
دفتر نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ قابض اسرائیلی انتظامیہ نے ان رہاشدگان کو کہاں منتقل کیا ہے۔
واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ قابض اسرائیل اور حماس کے درمیان شرم الشیخ میں ترکیہ، مصر اور قطر کی شراکت سے غیرمستقیم مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی پہلی مرحلہ جاتی صفقة طے پا گئی ہے۔
اس معاہدے کے مطابق پیر کے روز حماس نے غزہ سے 20 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں ریڈ کراس کے حوالے کیا، جبکہ تل ابیب نے دعویٰ کیا کہ 28 دیگر صہیونی فوجیوں کی لاشیں بھی موجود ہیں، جن میں سے 4 قابض اسرائیل کو مل چکی ہیں۔
فلسطینی کلب برائے اسیران اور قیدی امور کی تنظیم نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ آج قابض اسرائیل نے مجموعی طور پر 1968 فلسطینی اسیران کو رہا کیا، جن میں 250 عمر قید یافتہ اور 1718 وہ ہیں جو گذشتہ دو برس کے دوران غزہ کی جنگ کے بعد گرفتار کیے گئے تھے۔
ادھر فلسطینی حلقوں نے تل ابیب پر الزام لگایا ہے کہ وہ قیدیوں کی فہرستوں میں ہیرا پھیری کر رہا ہے اور کئی ایسے نام خارج کیے گئے ہیں جو رہائی کے وعدے میں شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق چند روز میں ڈیل کے دوسرے مرحلے پر بات چیت شروع ہونے والی ہے، جبکہ حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کے مکمل خاتمے، قابض اسرائیلی فوج کے غزہ سے مکمل انخلا اور مزاحمت کے اسلحے سے دستبرداری کے مطالبے کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں قابض اسرائیل نے 8 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر جاری جارحیت میں اجتماعی نسل کشی کی انتہا کر دی تھی، جس میں اب تک 67 ہزار 869 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار 105 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ صہیونی محاصرے کے باعث بھوک اور قحط سے بھی 463 فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا، جن میں 157 بچے شامل ہیں۔