Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

شرم الشیخ امن کانفرنس یا تماشہ

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم(سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان)
شرم الشیخ میں امن کانفرنس کے نام پر ایک اسٹیج مورخہ 13اکتوبر سنہ 2025کو سجایا گیا جس کی قیادت امریکی صدر ٹرمپ نے کی، اس کانفرنس میں مغربی و یورپی ممالک سمیت عرب ممالک اور مسلمان ممالک کے سربراہ شریک تھے ، کل ملا کر 20ممالک کی نمائندگی تھی اور ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو کام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی قیادت می انجام پانا چاہئیے تھا وہ کام امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں انجام دیا گیااور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ طاقتور ہے اور اب بھی حکم چلا سکتا ہے۔ حالانکہ یہی امریکی حکومت غزہ جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی چھ قراردادوں کو ویٹو کر چکی ہے اور اب کس منہ سے امن کی بات کی جا رہی ہے ؟ یہ سوال دنیا بھر کے ذ ی شعور انسانوں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
امن کانفرنس میں شرکت سے قبل ٹرمپ نے مقبوضہ فلسطین میں جا کر یافا یعنی صیہونیوں کے تل ابیب کا دورہ کیا اور ہاں اسرائیلی کینسٹ سے خطاب بھی کیا۔اس خطاب میں امریکی صدر نے اعلانیہ طور پر غزہ کی نسل کشی کا اعتراف کچھ ان الفاظ میں کیا کہ نیت یاہو مجھ سے مسلسل نیا اسلحہ مانگتا رہتا ہے اور میں نے نیتن یاہو کو اکیس ارب ڈالر کا اسلحہ دیا ہے اور نیتن یاہو نے اس اسلحہ کا بہترین استعمال کیا ہے۔ یعنی ٹرمپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہی ہیں جنہوںنے غزہ میں ستر ہزار سے زائد معصوم انسانوں کو صرف دو سال کے عرصہ میں موت کی نیند سلا دیا ہے اور ہم اس پر شرمندہ بھی نہیں ہے۔ اب یہی ٹرمپ تل ابیب سے شرم الشیخ پہنچ کر امن کا راگ الاپ رہے تھے۔
پھر دنیا ی بھی نہیںبھول پائی کہ ابھی تین چار ماہ قبل ہی اسی ٹرمپ نے ایک خود مختار اور آزاد ریاست ایران پر امریکی فضائی حملہ کیا تھا اور تمام بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی تھی۔ یہی ٹرمپ ہے جو روس کو بھی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتا آیا ہے اور اب یہی ٹرمپ ہے جس نے افغانستان کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے کہ بگرام ائیر بیس پر امریکہ قبضہ کرے گا۔ یہی ٹرمپ ہے کہ جس کی مرضی سے اسرائیل یمن پر بمباری کرتا آیا ہے اور لبنان و شام پر بھی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ خود اسی ٹرمپ نے یمن میں بھی بمباری کی ہے ۔اب یہ کس منہ سے امن کی بات کرتے ہیں ؟
بہر حال اب اگر غزہ سے متعلق امن کانفرنس کی بات کریں تو یہاں بھی ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی دلدس میں پھنسے ہوئے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اکیس ارب ڈالر کا اسلحہ ضائع ہو چکا لیکن غزہ میں اہداف حاصل نہ ہو سکے، پوری دنیا میں غزہ کی حمایت بڑھنے لگی جس نے امریکہ اور اسرائیل کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کر دیا۔ یہ ساری وہ حقیقت ہے جس نے امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی دہشتگرد نیتن یاہو کو ایک ایسی دلدل میں گھسیٹ لیا تھا جہاں سے نکلنا نا ممکن تھا ۔صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ جس فلسطینی مزاحمت حماس کو کل تک دہشتگرد کہتے تھے آج اسی کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے اور انہی کی شرائط کے مطابق معاہد ہ کو تبدیل کرنا پڑا۔یہ وہ شکست تھی جس کو چھپانے کے لئے شرم الشیخ میں ایک ٹرمپ تھیٹر شو کا انعقاد کیا گیا اور اپنے من پسند تماشائیوں کو مدعو کر کے قصیدہ خوانی کی گئی جیسا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے خوشامد اور چاپلوسی کی حد ہی کر دی۔ان ساری باتوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ دنیا کو یہ ثابت کیا جائے کہ ٹرمپ امن خواہ ہیں نہ کہ جنگ خواہ۔ لیکن جس نے چند ماہ قبل ہی ایران اور یمن میں خود جارحیت انجام دی ہے اور بقیہ ذکر کردہ ممالک میں اسرائیل کے ذریعہ اکیس ارب ڈالر کے اسلحہ کی مدد سے جارحیت انجام دی ہو اس کو کوئی امن کا صدر نہیں بلکہ جنگ کا صدر کہہ سکتا ہے اور یہی ٹائٹل ہی ٹرمپ کو زیب دیتا ہے۔
اب آئیے ذرا غزہ کے امن سے متعلق شرم الشیخ کانفرنس کا احوال بھی دیکھتے ہیں کہ آخر یہ کانفرنس کیا تھی ؟ جو کچھ اس کانفرنس میں ہوا وہ صرف اور صرف امریکی صدر کے حکم نامہ کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا یہاں تک کہ کانفرنس میں شریک تماشائیوں کو فیصلہ سازی میں شامل ہی نہیں کیا گیا بس ان سے کہا گیا کہ تماشہ دیکھو اور اپنے اپنے دستخط کر کے گھروں کو چلتے بنو۔
کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ اس امن کانفرنس میں جنگ میں مارے گئے65000سے زائد شہریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر انہی قوتوں نے جرمنی کے خلاف نرمبرگ ٹرائل چلایا تھا اور نازیوں کو کٹہرے میں لایا گیا تھا لیکن امن کانفرنس میں قاتلوں کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ اسی طرح ا س سربراہی اجلاس میں فلسطینیوں کے اپنی آزاد ریاست کے قیام کے حق پر بات کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا۔لہذا یہ کانفرنس کم اورایک سفارتی تھیٹر زیادہ تھا جسے ٹرمپ نے بین الاقوامی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ترتیب دیا تھا، جبکہ شرکاء صرف تماشائیوں کے کردار تک محدود تھے۔امریکی صدر نے پرانے عزائم کو نئے انداز میں مشرق وسطیٰ میں مسلط کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کی ۔ یہاں تک کہ انسانی ہمدردی کی گفتگو بھی مکمل طور پر غائب تھی۔کسی نے غزہ کی ماؤں، کیمپوں کے بچوں یا شہروں پر بمباری کی بات نہیں کی اور پھر امن کے نام پر خاموش رہنے کو کہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ شرم الشیخ کانفرنس ختم ہوئی، اور اخلاقی سوال باقی رہ گیا:یہ کیسا امن ہے جو انصاف کے کھنڈرات پر بنایا گیا ہے۔ شرم الشیخ میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں فقط ایک جملہ کافی ہے کہ انصاف کے بغیر امن اور فلسطین کے بغیر کانفرنس۔اور ٹرمپ تھیٹر شو ختم ہواسب گھروں کا جائیں ، یہی ٹرمپ نے آخری جملے ادا کئے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan