انقرہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک غزہ کے حوالے سے طے پانے والے سمجھوتے کے نفاذ کی نگرانی کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ سمجھوتے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔
جمعہ کے روز اپنے بیان میں طیب ایردوآن نے کہا کہ قابض اسرائیل کا ماضی اپنے وعدوں کی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ان کے بقول “ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ معمولی اور بے معنی وجوہات تراش کر معاہدوں سے انحراف کیا ہے”۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر غزہ میں نسل کشی کے ماحول کی طرف دوبارہ واپسی ہوئی تو اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔
واضح رہے کہ کل جمعہ دوپہر 12 بجے غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے معاہدے پر باضابطہ طور پر عمل درآمد شروع ہو گیا، اس سے قبل قابض اسرائیل کی حکومت نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں طے پانے والے اس معاہدے کی توثیق کی تھی۔
قابض اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں تصدیق کی کہ فائر بندی کا معاہدہ دوپہر 12 بجے نافذالعمل ہوا اور اس کی فورسز نے قیدیوں کے تبادلے اور سیز فائر کی شقوں کے مطابق اپنی نئی عملی تعیناتی مکمل کر لی ہے۔
بیان کے مطابق اب غزہ کے جنوبی اور شمالی حصوں کے درمیان شارع الرشید اور شارع صلاح الدین کے راستے عام شہریوں کی آمد و رفت کی اجازت دے دی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق، معاہدے کے نفاذ کے ساتھ ہی ہزاروں بے گھر شہری وسطی غزہ سے اپنے شہروں اور علاقوں کی طرف واپسی شروع کر چکے ہیں۔
گذشتہ شب حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے اپنے ایک نشری خطاب میں اعلان کیا کہ بین الاقوامی ثالثوں کی کوششوں سے قابض اسرائیل کی دو سالہ نسل کشی کی جنگ کے بعد ایک مستقل فائر بندی کے معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے بین الاقوامی ثالثوں کے ساتھ مل کر ایک ایسے معاہدے تک رسائی حاصل کر لی ہے جس میں “مستقل فائر بندی، قابض افواج کا غزہ سے مکمل انخلا، رفح کراسنگ کے راستے انسانی امداد کی فراہمی اور قیدیوں کا تبادلہ” شامل ہے۔
خلیل الحیہ کے مطابق “معاہدے کے تحت 250 عمر قید قیدی، 1700 قیدی جو غزہ سے گرفتار کیے گئے اور ان کے ساتھ تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا”۔
یہ معاہدہ غزہ کے عوام کے لیے ایک نئی صبح کی نوید ہے جو دو سالہ مسلسل خونریزی، محاصرے اور اجتماعی سزا کے بعد زندگی کی نئی امید کے ساتھ اپنی سرزمین پر واپس آ رہے ہیں۔