غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں ہونے والی جنگ بندی کی صبح کسی عام دن کی مانند نہیں تھی۔ تباہی اور راکھ کے بیچ، لوگ یوں نکلے گویا زمین کی گہرائیوں سے زندگی کی طرف واپس آ رہے ہوں۔ دو برس طویل جنگ نے پتھروں اور انسانوں دونوں کو نگل لیا، ان گنت زخم چھوڑے، مگر فلسطینی اپنے وطن سے وابستہ رہے، روزانہ کے بمباری اور جبری بے دخلی کے فیصلوں کے باوجود اپنی زمین میں اور بھی گہرے جڑ گئے۔
تباہ حال گلیوں میں لفظوں سے پہلے آنسو پھوٹ پڑے۔ بوڑھے، جوان، بچے سب نکلے، ہاتھوں میں اپنے گھروں کی چابیاں اور وہ یادیں اٹھائے جو بمباری میں دفن ہو گئیں۔ جنگ بندی کا اعلان کوئی عام سیاسی خبر نہیں تھا بلکہ خوف، بھوک اور جلاوطنی کے طویل اندھیرے کے بعد ایک اجتماعی سانس لینے جیسا لمحہ تھا۔
“میں نے خبر سنی تو یقین نہیں آیا، لگا جیسے میری روح واپس آ گئی ہو” یہ کہنا ہے ام احمد ابو مغصیب کا جو اپنے اجڑے ہوئے گھر کے دروازے پر کھڑی آنسو پونچھ رہی تھیں۔ انہوں نے عزم سے کہاکہ “اگر ایک پتھر بھی باقی نہ رہے تب بھی میں یہیں لوٹوں گی”۔
محمد الکیلانی نے اپنی زمین کی مٹی چھوتے ہوئے کہاکہ “مجھے غزہ اور اس کی مٹی سے عشق ہے، ہم یہیں سے سنہ1948ء کی مقبوضہ زمینوں کی طرف واپس جائیں گے۔ میں اس زمین کو چھوڑ نہیں سکتا، چاہے مجھے آسمان اوڑھنا اور زمین بچھونا پڑے”۔
واپسی کا راستہ
صبح سے ہی سیکڑوں فلسطینی شہری وادی غزہ کے پل پر جمع تھے جو شمالی غزہ کی جانب جاتا ہے، جہاں سے انہیں اس وقت جبری طور پر نکالا گیا تھا جب قابض اسرائیل کے فوجیوں نے شہر پر قبضے کے لیے اپنا حملہ شروع کیا۔ لوگ اس لمحے کے منتظر تھے جب راستہ کھلے گا۔
بوڑھے، عورتیں اور نوجوان اپنی تھکی آنکھوں، دلوں کے بوجھ اور گھروں کی چابیاں لیے کھڑے تھے۔ ہر چہرہ ایک داستان سناتا تھا اور ہر آنسو ایک پوری جنگ کا خلاصہ تھا۔ یہ راستہ صرف دو علاقوں کو نہیں بلکہ دو زمانوں کو جوڑتا تھا: جلاوطنی کا زمانہ اور واپسی کا زمانہ۔
میساء حلس غزہ کی ایک بے گھر خاتون ہیں جو غزہ شہر کی طرف لوٹنے کی منتظر ہیں۔ ہاتھ میں زنگ آلود چابی دکھاتے ہوئے کہتی ہیں “ہم بمباری سے نکل آئے، لیکن امید کبھی نہیں چھوڑی”۔
خالد ابو شاویش افق کو دیکھتے ہوئے بولے “یہ زمین ہماری ہے، ہم اسے اپنے آنسوؤں سے سینچتے ہیں، اپنے خون سے زرخیز بناتے ہیں”۔
خوشی اور احتیاط کے درمیان… خیموں میں زندگی کی رمق
پناہ گزین کیمپوں میں دبے دبے لہجے میں زغارید سنائی دینے لگیں۔ خوشی اور خوف نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ بہت سے چہروں پر مکمل مسکراہٹ نہ آ سکی، جیسے خوف اب بھی سرگوشی کر رہا ہو کہ جنگ لوٹ سکتی ہے۔ مگر بچوں نے ان سب خدشات کو پیچھے چھوڑ دیا، وہ خیموں کے درمیان دوڑتے، چھوٹے جھنڈے لہراتے، واپسی اور زندگی کے ترانے گاتے رہے۔
اگرچہ بیشتر گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے، پھر بھی لوگوں نے اپنے حقِ سکونت سے دستبرداری نہیں کی۔ فائزہ ابو العطا جنہوں نے جنگ میں اپنے بیٹے اور خاندان کو کھو دیا، آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے کہتی ہیں کہ “ہم واپس آئے ہیں تاکہ نیا آغاز کریں، ہمیں کچھ نہیں چاہیے، بس سکون سے جینا چاہتے ہیں”۔
مہند ثابت نے غیر متزلزل یقین سے کہاکہ “اگر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنا پڑا تب بھی ہم لوٹیں گے، یہ زمین ہماری ہے، اور پوری فلسطین ہماری ہے”۔
بین الاقوامی اندازوں کے مطابق، اس ہولناک جنگ نے غزہ کی 70 فیصد عمارتوں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا۔ دسیوں ہزار خاندان اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہو گئے۔ مگر اس سب کے باوجود لوگ اپنی جگہوں پر لوٹنے پر مصر ہیں، وہ ملبے کے درمیان اپنی دیواروں کو چھو کر گویا خود کو پھر سے پہچان رہے ہیں۔
زندگی کی واپسی… غزہ کبھی نہیں مرتا
غزہ کی گلیوں میں متضاد مناظر ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بچہ ملبے میں کھیل رہا ہے، ایک عورت اپنے اجڑے باورچی خانے کی راکھ سمیٹ رہی ہے، اور ایک مرد مہینوں بعد اذان دے رہا ہے۔ ان سب مناظر میں ایک ہی احساس نمایاں ہے۔یہ زمین زندہ ہے۔
غزہ کے لوگوں کے پاس وسائل کم ہیں لیکن ایمان پختہ ہے کہ زمین اپنے وفاداروں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔ جڑیں اگرچہ راکھ تلے دب جائیں، وہ پھر بھی سبز ہو کر نکلتی ہیں۔ ایک نوجوان ملبہ ہٹاتے ہوئے کہتا ہے “غزہ نہیں مرتا، ہم نہیں مرتے، ہم ہر روز نئے سرے سے جنم لیتے ہیں”۔
غزہ آج ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا، مگر اپنے لوگوں کی طرح وہ بھی ہر بار ملبے سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہر ٹوٹے پتھر کے نیچے، ہر آنسو کے پیچھے جو جنگ بندی کی خبر سن کر بہا، ایک نئی کہانی جنم لے رہی ہےایسے قوم کی جو اپنی زمین میں جڑی ہوئی ہے، جو جانتا ہے کہ واپسی کوئی سیاسی واقعہ نہیں، بلکہ زندگی کی مسلسل دھڑکن ہے۔
آج دوپہر غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ نافذالعمل ہو گیا، دو برس طویل اس جنگ کے بعد جو قابض اسرائیل نے مسلط کی، جس میں 2 لاکھ 37 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہوئے، 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہوئے، سینکڑوں افراد قحط کے باعث جان سے گئے، اور 20 لاکھ سے زیادہ لوگ جبری نقل مکانی کے عالم میں ملبے کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ یہ انسانیت کی تاریخ کی بدترین تباہیوں میں سے ایک ہے۔