روم ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اطالوی ارکانِ پارلیمان نے قابض اسرائیل کی جانب سے ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ کے کارکنوں اور ارکانِ پارلیمان کے اغوا کے خلاف اٹلی کے اٹارنی جنرل کو باضابطہ یادداشت پیش کر دی ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب فلوٹیلا کی دس کشتیوں پر مشتمل بحری قافلہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے روانہ ہے اور دنیا بھر سے آنے والے کارکنان غزہ کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اطالوی ارکانِ پارلیمان جو اس فلوٹیلا پر سوار تھے اور جنہیں بعد ازاں قابض اسرائیل نے ملک بدر کیا، انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ بین الاقوامی پانیوں میں قابض اسرائیل کا یہ اقدام ’’اغوا‘‘ کے مترادف ہے، اسے کسی طور ’’گرفتاری‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
ان ارکان نے کہا کہ اسرائیلی کارروائی بین الاقوامی قوانین اور بحری قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں اٹارنی جنرل کو ایک باضابطہ درخواست پیش کر دی ہے تاکہ اسرائیلی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور تمام گرفتار کارکنوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کا بیان
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ قابض اسرائیل نے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل 137 کارکنوں کو گرفتار کیا جنہیں اب ہوائی جہاز کے ذریعے استنبول منتقل کیا جا رہا ہے۔ وزارت کے ذرائع نے بتایا کہ ان میں 36 ترک شہری شامل ہیں، جب کہ دیگر کارکنان امریکہ، متحدہ عرب امارات، الجزائر، مراکش، اٹلی، کویت، لیبیا، ملیشیا، موریتانیہ، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور اردن کے شہری ہیں۔
اطالوی وفد کی وطن واپسی
گذشتہ روز اٹلی کے چار پارلیمانی اراکین پر مشتمل پہلا وفد وطن واپس پہنچا۔ اٹلی کے رکنِ پارلیمان آرتورو اسکوتو نے روم میں پریس کانفرنس کے دوران کہا:
“قانونی اور انسانی عمل وہ تھا جو فلوٹیلا کے جہازوں پر موجود کارکنان نے کیا، غیر قانونی اقدام وہ تھا جو قابض اسرائیل نے کر کے ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالی۔”
اسی کانفرنس میں شریک اطالوی رکنِ پارلیمان بینیدیٹا سکودیری نے بتایا:
“ہمیں وحشیانہ طریقے سے روکا گیا، زبردستی یرغمال بنایا گیا۔”
ادھر قابض اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار کارکن “محفوظ اور صحت مند” ہیں۔
صہیونی حملہ اور عالمی ردعمل
انسانی امداد سے بھری یہ کشتیاں جمعے کی دوپہر تک غزہ سے تقریباً 470 میل دور تھیں جب ان پر حملہ کیا گیا۔ ان کے ساتھ “الضمیر” نامی ایک اور کشتی بھی جا ملی تھی جو اٹلی کے بندرگاہ اوترانتو سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں تقریباً 120 افراد سوار تھے، جن میں زیادہ تر طبی عملہ اور صحافی شامل تھے۔
یہ فلوٹیلا، جو اگست کے آخر میں روانہ ہوئی تھی، غزہ کے خلاف جاری سمندری محاصرے کو چیلنج کرنے کی تازہ ترین کوشش تھی۔ قابض اسرائیلی حکام نے اس مشن کو “تشہیری حربہ” قرار دے کر اس پر حملے کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی، مگر ان کا یہ جھوٹا جواز دنیا بھر میں مسترد کر دیا گیا۔
قابض اسرائیل کی اس درندگی پر عالمی سطح پر شدید احتجاج ہوا۔ مختلف ممالک میں عوامی مظاہرے کیے گئے اور حکومتوں نے اسرائیلی اقدام کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوری طور پر گرفتار کارکنوں کی رہائی اور اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
بین الاقوامی مذمت
متعدد عالمی اداروں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلوٹیلا کی سلامتی کے لیے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیلی کارروائی کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کے منافی بتایا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ قابض اسرائیل نے غزہ کی جانب بڑھنے والے امدادی جہازوں پر بحری قزاقی کی ہو۔ ماضی میں بھی وہ ایسی متعدد کشتیوں پر قبضہ کر کے انسانی حقوق کے کارکنوں کو یرغمال بنا چکا ہے۔