غزہ — (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر نسل کشی کی جنگ بدستور جاری ہے۔ بدھ کے روز اس درندگی کو 719 دن مکمل ہوگئے، جس میں صہیونی فوج نے فضائی اور زمینی حملوں کے ساتھ ساتھ بھوک اور بے گھری کے مارے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ سب کچھ امریکہ کی کھلی سیاسی و عسکری سرپرستی اور عالمی برادری کی خاموشی و بے حسی کے سائے میں ہو رہا ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے درجنوں فضائی حملے کیے اور مزید خونریز مجازر برپا کیے۔ دو ملین سے زائد فلسطینی جبری بے گھری اور سخت ترین قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ شہر پر حملوں کو مزید تیز کر دیا گیا تاکہ اسے مکینوں سے خالی کر کے مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔
تازہ ترین صورتحال
غزہ کے ہسپتالوں کے طبی ذرائع نے بتایا کہ بدھ کی صبح سے صہیونی بمباری کے نتیجے میں 33 فلسطینی شہید ہوئے جن میں سے 28 صرف غزہ شہر میں شہید ہوئے۔
جنوبی رفح کے شمال میں امدادی مرکز الشاکوش کے قریب قابض فوج کی بمباری سے اسماعیل البُحیصی، وسام ابو راشد اور محمد السطری شہید ہوئے۔
غزہ شہر میں شارعِ عمر المختار پر قابض اسرائیل کے ڈرون حملے میں ایک شہری شہید اور کئی زخمی ہوئے۔
النصیرات کے العودہ ہسپتال نے بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ایک خاتون شہید اور 14 افراد زخمی ہوئے جن میں 4 خواتین اور 5 بچے شامل ہیں۔ مزید 3 زخمیوں کو ہسپتال الشفاء سے منتقل کیا گیا۔ یہ سب صہیونی فضائی اور ڈرون حملوں کا نتیجہ ہیں۔
غزہ کے جنوبی علاقے الصبرہ میں الہمص خاندان کے گھر پر حملے میں 5 افراد شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ اسی طرح الیرموک علاقے پر بمباری سے ایک خاتون شہید ہوئی۔
آج صبح قابض اسرائیل نے ایک اور سنگین مجزَرہ اس وقت برپا کیا جب اس نے سوقِ فراس کے قریب ایک عمارت پر بمباری کی جو بے گھر شہریوں کو پناہ دے رہی تھی۔ اس حملے میں 22 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 9 بچے اور 6 خواتین شامل ہیں۔
تلّ الہوا کے آسمان پر قابض اسرائیلی فوج نے روشنی کے گولے داغے۔
وسطی نصیرات کیمپ میں خطاب خاندان کے گھر پر بمباری کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہوئے۔
نسل کشی کا تسلسل
امریکہ کی مکمل حمایت سے قابض اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 65 ہزار 382 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 66 ہزار 985 زخمی ہو چکے ہیں۔ 9 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، جبکہ قحط نے سیکڑوں زندگیاں نگل لی ہیں۔ دو ملین سے زیادہ فلسطینی جبری بے گھری، تباہی اور ملبے کے ڈھیر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
قابض اسرائیل نے بچوں کو کھلا ہدف بنا رکھا ہے۔ اب تک 20 ہزار سے زائد بچے اور 12 ہزار 500 خواتین شہید ہو چکی ہیں جن میں تقریباً 9 ہزار مائیں بھی شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زائد شیرخوار بچے بھی شہید کیے گئے جن میں سے 450 وہ ہیں جو جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور بعد میں قابض اسرائیل کی بمباری کا شکار ہوگئے۔
18 مارچ سنہ 2025ء کو فائر بندی معاہدے سے انحراف کے بعد سے اب تک 12 ہزار 823 شہید اور 54 ہزار 944 زخمی ہو چکے ہیں۔
27 مئی سنہ 2025ء سے جب قابض اسرائیل نے امدادی مراکز کو قتل گاہوں میں بدل دیا، 2 ہزار 526 فلسطینی شہید اور 18 ہزار 511 زخمی ہوئے۔ اس دوران 45 افراد لاپتہ ہیں۔ صہیونی، امریکہ نواز نام نہاد “مؤسسہ انسانیہ غزہ” کے ذریعے قتل و جبر کو انسانی ہمدردی کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔
قحط اور خوراک کی شدید قلت کے باعث 442 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 147 بچے شامل ہیں۔
اب تک 1 ہزار 670 طبی عملہ، 139 سول ڈیفنس اہلکار، 248 صحافی، 173 بلدیاتی ملازمین اور 780 امدادی پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ کھیلوں کی تحریک کے 860 کارکن بھی اس قتلِ عام میں جاں بحق ہوئے۔
قابض اسرائیل اب تک 15 ہزار سے زائد خونریز مجازر کر چکا ہے۔ 14 ہزار سے زائد خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں 2,700 خاندان مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔
حکومتی میڈیا دفتر اور عالمی اداروں کے مطابق غزہ کی 88 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ مالی نقصان 62 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ قابض اسرائیل نے 77 فیصد علاقے پر قبضہ کر کے اسے آگ اور خون میں لپیٹ دیا ہے۔
تعلیمی اداروں کو بھی بے دریغ نشانہ بنایا گیا۔ 163 سکول، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر مٹائے گئے، 369 جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ اسی طرح 833 مساجد مکمل اور 167 جزوی طور پر منہدم کی گئیں۔ 19 قبرستان بھی مٹائے گئے۔