نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) سلامتی کونسل نے غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو درپیش انسانی بحران تباہ کن حد تک سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس میں اراکین نے اقوام متحدہ کے نائب کوآرڈی نیٹر برائے امن عمل رامز الاکبروف کی بریفنگ سنی، جس میں مقبوضہ فلسطینی زمینوں پر قابض اسرائیل کی توسیع پسندانہ بستیوں کے خطرناک منصوبوں پر روشنی ڈالی گئی۔
الاکبروف نے یاد دلایا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2334 سنہ2016ء میں منظور کی گئی تھی جس کے باوجود قابض اسرائیل نے اپنی توسیعی پالیسی تیز تر کر دی ہے۔ اس نے منصوبہ “ای 1” کو دو ریاستی حل کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا کیونکہ یہ شمالی اور جنوبی غرب اردن کو کاٹ کر الگ کر دیتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ بستیاں غیر قانونی ہیں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان پالیسیوں کا مقصد فلسطینی ریاست کے وجود کو محدود کرنا اور قابض اسرائیل کے ناجائز قبضے کو مضبوط کرنا ہے۔
الاکبروف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا انتباہ بھی دہرایا جس میں کہا گیا کہ منصوبہ “ای 1” دراصل ایک تباہ کن اقدام ہے جو جبری بے دخلی کے خطرے کو بڑھاتا اور خطے میں کشیدگی بھڑکاتا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے قابض اسرائیلی حکام کے ان بیانات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا جن میں فلسطینی زمینوں کو ضم کرنے کی کھلی بات کی جا رہی ہے۔
اجلاس میں مختلف ممالک نے اپنی اپنی آراء پیش کیں۔ روس نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے قرارداد 2334 کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور “ای 1” منصوبے کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا ہے۔
سیرا لیون نے قرارداد پر عمل درآمد اور غزہ و غرب اردن میں شہریوں کے تحفظ پر زور دیا۔
چین نے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور قابض اسرائیل کے ہاتھوں امدادی سامان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف خبردار کیا۔
برطانیہ نے کہا کہ توسیعی منصوبے اور “ای 1” کو فوری طور پر روکا جائے اور امداد کی ترسیل کے لیے بارڈر کھولے جائیں۔
صومالیہ نے نشاندہی کی کہ 150 سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں قابض اسرائیل کے غیر قانونی بستیوں کے منصوبے میں شریک ہیں۔
ڈنمارک نے مطالبہ کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے مالی وسائل فوری طور پر جاری کیے جائیں اور انسانی تنظیموں کی رسائی یقینی بنائی جائے۔
گویانا نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
فرانس نے واضح کیا کہ “ای 1” منصوبہ غرب اردن کو دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ فرانس نے قابض اسرائیلی آبادکاروں کے حملے بند کرنے اور شہریوں کے تحفظ پر زور دیا۔
سلووینیا نے فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کا اعادہ کیا، انروا کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جنگ بندی اور غزہ میں زندگی کی بحالی فوری طور پر ہونی چاہیے۔ سلووینیا نے کہا کہ امن جنگ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ قابض اسرائیل کے تسلط کے خاتمے اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر ہی ایک پائیدار حل ممکن ہے۔
یہ اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی مباحثے کے بعد ہوا جس میں دنیا کے رہنماؤں نے اپنی قومی ترجیحات اور مشترکہ چیلنجوں پر اظہار خیال کیا۔
واضح رہے کہ “ای 1” منصوبہ سنہ1997ء سے سامنے آیا اور اسے غرب اردن کے سب سے خطرناک صہیونی منصوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد مشرقی القدس کے اطراف کی فلسطینی بستیوں (عناتا، الطور، حزما) کو گھیر کر ان کے پھیلاؤ کو روکنا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی آزاد فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر القدس کے قیام کے خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جا سکے۔