مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسرائیلی کنیسٹ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی ’انروا‘ کو اسرائیلی غاصب ریاست میں کام کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
ارکان کنیسٹ نے 10 مخالف ووٹوں کے مقابلے میں 92 ووٹوں کی اکثریت سے اس منصوبے کی منظوری دی جس میں’یو این آر ڈبلیو اے‘ کے خلاف اسرائیلی مہم کے برسوں بعد پابندی کی منظوری دی ہے۔
10 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے اسرائیل کوخبردار کیا تھا کہ وہ ایجنسی پر پابندی عائد کرنے والی قانون سازی کے ساتھ آگے بڑھنے کو قبول نہیں کرتا۔
پیر کو متن پیش کرتے ہوئے رکن کنیسٹ یولی ایڈلسٹین نے دعویٰ کیا کہ “دہشت گرد تنظیم (حماس) اور یو این آر ڈبلیو اے کے درمیان گہرا تعلق ہے اور اسرائیل اسے قبول نہیں کر سکتا”۔
مسودہ قانون کی منظوری سے قبل اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ اسرائیلی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داریوں سے متصادم ہے۔
دوجارک نے روزانہ کی پریس کانفرنس میں کہا کہ سیکرٹری جنرل گوتریس نے مسودہ قانون کے حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔
دوجارک نے نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ نے مذکورہ مسودہ قانون کے اثرات سے خبردار کیا۔ انہوں مزید کہا کہ “ہمارے نزدیک یہ مسودہ قانون اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داریوں سے متصادم ہے”۔
سنہ 1949ء میں انروا کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں بہت سے ممالک میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے اس ادارے کی مدد کا اعلان کیا تھا۔ یہ ادارہ غزہ اور مغربی کنارے میں خاص طور پر صحت کے مراکز اور اسکول چلاتا ہے۔ اسے غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی امداد کی تقسیم کی “ریڑھ کی ہڈی” سمجھا جاتا ہے۔
ایجنسی کے سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے کچھ نے سال کے آغاز میں اپنا تعاون روک دیا جب اسرائیل نے غزہ میں ایجنسی کے 13,000 ملازمین میں سے 19 پر 7 اکتوبر 2023ء کو ہونے والے حملے میں حصہ لینے کا الزام لگایا۔
لیکن عطیہ دہندگان کی اکثریت نے اپنا تعاون دوبارہ شروع کر دیا ہے۔