غزہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) بین الاقوامی تنظیم “ایکشن ایڈ” نے آج ہفتے کے روز خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ ہسپتال العودہ میں آنے والی تقریباً 300 خواتین میں سے 70 سے 75 فیصد ایسی ہیں جو خوراک کی کمی اور حمل کے دوران ضروری سپلیمنٹس کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہیں۔
’ایکشن ایڈ‘ نے بتایا کہ اسے غزہ کے ڈاکٹروں اور حاملہ خواتین سے گواہیاں ملی ہیں کہ کس طرح بھوک اور ادویہ و طبی سامان کی قلت کے باعث حمل کے دوران پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت سامنے آئی ہے جب ایک ہفتہ قبل “عالمی فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن” (IPC) نے غزہ شہر میں قحط کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
ہسپتال کے ڈاکٹر یاسر نے کہاکہ “خواتین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ان کا وزن کم ہو رہا ہے، بچے کا وزن گھٹ رہا ہے، جنین کی حرکت میں کمی آ رہی ہے اور ماں اور بچے کی صحت دن بدن بگڑ رہی ہے۔ آئرن کی کمی، کیلشیم کی کمی اور وٹامن ڈی کی کمی عام ہو چکی ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔”
ڈاکٹروں نے متنبہ کیا کہ کیلوریز اور غذائی اجزاء کی کمی حاملہ ماؤں اور ان کے بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کمی کی وجہ سے حمل کی پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں جن میں اسقاط حمل کے واقعات بھی شامل ہیں۔
العودہ ہسپتال کے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد صالحہ نے کہا کہ “غزہ کی صورت حال نہایت سنگین ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ خواتین غذائی قلت کی براہ راست متاثرہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر بدترین غذائی کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ اگرچہ ہمارا نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ سپلیمنٹس تقسیم کر رہا ہے لیکن ضرورت ہماری گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔”
متاثرہ خواتین نے بھی اپنی اذیت بیان کی۔ نيفين نامی خاتون جو دوسرے مہینے کی حاملہ ہیں، کہتی ہیں کہ ” کھانے کو کچھ ہے نہ طبی سامان میسر ہے۔ وٹامنز اور طبی نگہداشت کی کمی کی وجہ سے میں دو بار اسقاط حمل کا شکار ہو چکی ہوں۔” دعاء نامی خاتون جو ولادت کے قریب ہیں، کہتی ہیں: “بھوک کی وجہ سے چکر آتے ہیں اور بدن کانپتا ہے۔ کوئی دوا یا علاج دستیاب نہیں”۔
ایکشن ایڈ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری اور مستقل فائر بندی کی جائے اور انسانی امداد پر مسلط حصار ختم کیا جائے تاکہ خوراک، طبی سامان اور ایندھن غزہ تک پہنچ سکے۔ تنظیم نے واضح کیا کہ اس محاصرے کی انسانی قیمت ناقابلِ برداشت ہے اور روزانہ حاملہ خواتین میں غذائی قلت اور طبی نگہداشت کی کمی سے پیدا ہونے والی نئی پیچیدگیوں کے کیس درج ہو رہے ہیں۔