Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کا پانچ ہزار سال پرانا شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیا

غز ہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  گذشتہ دو برسوں سے غزہ کی پٹی پر وہ اجتماعی نسل کشی مسلط ہے جسے دنیا براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ یہ وہ درندگی ہے جس کے ہر لمحے کو کیمروں نے محفوظ کر لیا ہے مگر عالمی برادری کے پاس کوئی حقیقی اقدام ہے نہ کوئی مخلصانہ کوشش کہ وہ تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی قتل گاہ کو روک سکے۔

ماہرین اور مبصرین کے مطابق قابض اسرائیل کے جبری انخلاء کے احکامات اور مسلسل بمباری و دھماکوں کے نتیجے میں غزہ کی زمین کا 88 فیصد سے زائد حصہ اہلِ فلسطین سے خالی کرایا جا چکا ہے۔ اب محصور عوام کو محض 12 فیصد علاقے میں ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

غزہ کی حکومتی میڈیا آفس کے مطابق قابض اسرائیل نے اپنی منصوبہ بندی میں محض 12 فیصد زمین کو ’’پناہ گزین علاقوں‘‘ کے طور پر مختص کیا ہے، جہاں دو ملین سے زائد انسانوں کو ایک قید خانے کی طرح دھکیل دیا گیا ہے۔

دفتر کا کہنا ہے کہ صرف خان یونس کے المواصی علاقے میں ہی تقریباً دس لاکھ افراد پناہ لینے پر مجبور ہیں حالانکہ ان پر 110 سے زائد فضائی حملے کیے گئے اور دو ہزار سے زیادہ شہری شہید ہو چکے ہیں۔ یہ علاقے بنیادی زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں اور یہاں جینا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

زندگی کی بنیادوں کا انہدام

غزہ شہر میں اس وقت سب سے ہولناک منظر نامہ ہے۔ انروا کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ لاکھوں شہری محض دس مربع کلومیٹر کے رقبے میں سمٹنے پر مجبور ہیں، جہاں وہ یا تو ٹوٹے پھوٹے خیموں میں رہتے ہیں یا اپنے اجڑے گھروں کے ملبے کے سائے میں۔ پانی، خوراک اور بنیادی خدمات ناپید ہیں۔

ابو حسنہ کے مطابق عالمی ادارہ خوراک نے غزہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دیا ہے اور اب حالات مزید بدتر ہو چکے ہیں۔ جنوب کی طرف نقل مکانی کے لیے ایک خاندان کو اوسطاً 3200 ڈالر درکار ہیں جو تقریباً کسی کے پاس نہیں۔ اس وقت 95 فیصد سے زیادہ آبادی صرف انسانی امداد پر زندہ ہے جبکہ تنخواہیں اور نقدی ناپید ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل نے غزہ شہر کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ کر دیا ہے۔ یہ وہ قدیم شہر ہے جس کی تاریخ پانچ ہزار برس پرانی ہے اور جو اسلامی، مسیحی، بازنطینی اور فرعونی آثار کا امین ہے۔ اس کی بربادی نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ پوری انسانیت کے ثقافتی ورثے کے خلاف جرم ہے۔

ابو حسنہ نے بتایا کہ جنوبی غزہ میں بھی حالات مختلف نہیں۔ شدید ہجوم کی وجہ سے وہاں اب نئی خیمہ گاہ لگانے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ پینے کا پانی، نکاسی کا نظام اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہیں۔ انروا کے پاس ہزاروں ٹرک کھانے پینے کا سامان، دوائیں اور خیمے بھرے کھڑے ہیں مگر قابض اسرائیل ان کی آمد کو روکے ہوئے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ 12 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو محض 35 مربع کلومیٹر کے علاقے میں جبراً قید کیا جا رہا ہے۔ یہ کھلی انسانی تباہی ہے۔ مزید یہ کہ اندیشہ ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینیوں کو سمندر یا فضاء کے راستے غزہ سے مکمل طور پر باہر نکالنے کی کوشش کرے گا کیونکہ مصر نے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ابو حسنہ نے کہا کہ عالمی برادری ایک تاریخی امتحان سے گزر رہی ہے اگر آج یہ نسل کشی نہ رکی تو نئی نکبہ پوری امت کو جھنجھوڑ دے گی۔

صحت کا شعبہ مفلوج

غزہ کی میڈیکل سروسز کے سربراہ ڈاکٹر فارس عفانہ کے مطابق غزہ شہر میں انسانی اور صحت کے حالات مکمل انہدام کو پہنچ چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں اتنے شہداء اور زخمی آ رہے ہیں کہ گنجائش ختم ہو گئی ہے۔

انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ طبی مراکز کئی گنا زیادہ دباؤ میں ہیں، ادویات اور آلات ختم ہو چکے ہیں، ایندھن اور بجلی نہ ہونے سے آلات بند پڑے ہیں جس سے ہزاروں مریض براہِ راست موت کے دہانے پر ہیں۔

ایمبولینسیں اور طبی عملہ بھی مسلسل بمباری اور براہِ راست نشانے کی وجہ سے اپنا کام انجام نہیں دے پا رہے۔ بہت سے زخمی دم توڑ دیتے ہیں کیونکہ طبی ٹیمیں ان تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔

ڈاکٹر عفانہ نے بتایا کہ ہسپتالوں کے اندر مردہ و زخمی ایک ساتھ پڑے ہیں۔ آپریشن تھیٹر بند ہیں تو راہداریوں اور موبائل کی روشنی میں سرجریاں کی جا رہی ہیں۔ بستروں کی کمی کی وجہ سے مریض زمین پر لیٹے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں یہ صرف ایک وقتی صحت کا بحران نہیں بلکہ منظم نسل کشی ہے جس میں شہریوں کو براہِ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قابض اسرائیل ان کی موت کا ذمہ دار ہے۔

عفانہ کے مطابق اس سیاہ منظرنامے کے باوجود طبی عملہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گا کیونکہ ان کا ڈٹ جانا دنیا کے لیے انسانیت اور اخلاق کی آواز ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا تاکہ غزہ کا برباد صحت کا نظام مکمل طور پر ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔

عالمی بے حسی اور امریکہ کی پشت پناہی

دنیا کے ادارے اور انصاف کے نام نہاد نظام قابض اسرائیل کو نہ روک سکے ہیں نہ روکنے کی نیت رکھتے ہیں کیونکہ اسے امریکہ کی سیاسی و قانونی چھتری حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی قوم نسل کشی اور نسلی تطہیر کی چکی میں پس رہی ہے۔ ان کا خون، ان کے بچے اور ان کی قدیم تہذیب سب کچھ بے دردی سے کچلا جا رہا ہے جبکہ قابض اسرائیل اور اس کے حمایتی ذرا برابر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ یہ مجرمانہ خاموشی دنیا کو اس جرم کا برابر شریک بنا رہی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan